Maktaba Wahhabi

114 - 645
اس باب میں ان معانی کا جاننا بے حد مفید ہے جن میں شدید اضطراب واقع ہوا ہے۔ فصل:....راضی بہ رضا رہنے پر رافضی کا اعتراض اور اس کا جواب ’’رب تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہنے‘‘ پر رافضی کا کلام اور اس کا ردّ۔ [شبہ ]یہ امامی قدری کہتا ہے: اور ایک بات یہ ہے کہ ’’اس سے رب تعالیٰ کی قضا پر ناراض ہونا لازم آتا ہے حالانکہ قضائے الٰہی پر راضی رہنا واجب ہے۔ لہٰذا اگر تو کفر رب کی قضاء و قدر سے ہے تو ہم پر واجب ہے کہ اس پر راضی رہیں ۔لیکن کفر پر رضا جائز نہیں ۔‘‘ [جواب ]: اس کے متعدد جوابات ہیں : اوّل یہ کہ بے شمار اہل اثبات کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ رب تعالیٰ کی جملہ مقتضیات پر راضی رہنا واجب ہے کیونکہ اس کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ۔ علما کا مرض، فقر، اور ذلت پر راضی رہنے میں اختلا ہے کہ آیا یہ مستحب ہے یا واجب؟ امام احمد وغیرہ کے اس بارے دو اقوال ہیں ۔ جبکہ اکثر علماء کا قول ہے کہ مرض وغیرہ پر راضی رہنا مستحب ہے نا کہ واجب۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے اہل رضا کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ﴾ (البینۃ: ۸) ’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔‘‘ ہاں ! اللہ نے جو واجب کیا ہے، وہ صبر ہے۔ جس کا رب تعالیٰ نے متعدد آیات میں حکم دیا ہے۔ جبکہ مقدور پر راضی رہنے کا حکم نہیں دیا۔ ہاں مشروع رضا کا حکم دیا ہے۔ سو مامور بہ پر رضا واجب ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۵۹) ’’اور کاش کہ واقعی وہ اس پر راضی ہو جاتے جو انھیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے، جلد ہی اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں ۔‘‘ جبکہ دوسرا قول رضا کے وجوب کا ہے کیونکہ یہ رب تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہونا؛ اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہونے کی تمامیت میں سے ہے، کیونکہ ایک روایت میں آتا ہے: ’’جو میری قضاء پر راضی نہ ہو، اور میری آزمائش پر صبر نہ کرے تو میرے سوا کسی اور کو رب بنا لے۔‘‘
Flag Counter