Maktaba Wahhabi

157 - 645
پنجم :....یہ کہا جائے کہ موجب بالذات کے لفظ میں اجمال ہے۔ اگر تو اس سے وہ مراد لیا جو فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ علت تامہ مستلزمہ للعالم ہے تو یہ باطل معنی ہے۔ کیونکہ علت تامہ اپنے معلول کو مستلزم ہوتی ہے اور اگر یہ عالم معلول اور ایسی علت کو لازم ہے جو ازلی ہے تو اس میں حوادث نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ حوادث علت تامہ ازلیہ سے حادث نہیں ہوتے اور یہ خلافِ محسوس ہے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ یہ علت تامہ صفات سے مجرد ایک ذات ہے جیسا کہ صفات کی نفی کرنے والے فلاسفہ کا قول ہے۔ جیسے ابن سینا اور اس جیسے دوسرے۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ صفات سے موصوف ایک ذات ہے۔ لیکن وہ اپنے معلول کو مستلزم ہے۔ تو یہ بھی باطل ہے اور اگر موجب بالذات کی تفسیر یہ بیان کی جائے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں ایک ایک مخلوق کو اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ واجب کرتی ہے، تو یہ مسلمانوں کا، دوسرے اہل مذاہب کا اور اہل سنت کا مذہب ہے۔ پس جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ بندوں کے افعال اور حوادث وغیرہ کو واجب کرتا ہے تو یہ قول اہل سنت کے موافق ہے نہ کہ دہریہ کے معنی کے۔ ششم: ....ہم شیعہ قلمکار سے کہتے ہیں کہ:’’ تم نے جو عقلی دلیل بایں طورپیش کی ہے کہ بندہ کے اختیاری افعال اسی کی جانب منسوب کیے جاتے ہیں ، اور اس کے حسب ِ اختیار وقوع میں آتے ہیں ؛یہ ان افعال سے چکنا چور ہوجاتی ہے، جن کو بندہ انجام نہیں دیتا، مثلاً انسان اپنی صواب دید کے مطابق اپنے کپڑے کو رنگتا ہے، اور اس کو انسان کی صنعت شمار کیا جاتا ہے حالانکہ رنگ اس کا پیدا کردہ نہیں ۔ اسی طرح کھیتی باڑی اور درخت بعض اوقات انسان اپنی مرضی سے بوتا ہے اور اس فعل کو اپنی جانب منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ اگانا اس کا کام نہیں ہے، اس بیان سے یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ جو چیز انسان کی طرف منسوب ہو اور اس کے حسب ِمرضی وقوع پذیر ہو یہ ضروری نہیں کہ اس کی پیداکردہ ہو، یہ عقلی معارضہ ہے۔جو نفس دلیل کے الفاظ سے ہے۔ جبکہ وہ ایسا معارضہ عقلیہ ہے جو نفس دلیل کے الفاظ سے نہیں ۔ ہفتم :....یہ کہا جائے کہ یہ امامی اور اس جیسے دوسرے لوگ تناقض کا شکار ہیں کیونکہ انہوں نے یہ بات بارہا ذکر کی جا چکی ہے کہ جب داعی مع القدرت ہو تو فعل واجب ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں پر کہتا ہے کہ داعی اور قدرت کے باوجود فعل کا وجود واجب نہیں ہوتا۔ سو معلوم ہوا کہ لوگ اپنی رائے کے موافق اور اپنے قول کی تائید میں کلام کرتے ہیں نہ کہ حق پر اعتماد کرتے ہیں ؛ اور نہ ہی وہ حق جانتے اور مانتے ہیں نہ اس کی نصرت ان کا مقصد ہے۔ فصل ....رافضی کا قول کہ ’’بھلا یہاں کون سی شرکت ہے؟‘‘ اور اس کا ردّ باقی رہا شیعہ مضمون نگار کا یہ قول کہ ’’ اس میں شرک کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:’’ حوادث کا بلا قدرت ا لٰہی پیدا ہوجانے کا عقیدہ ہی بہت بڑا شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین تقدیر [روافض ]کو مجوس کے مماثل ؍مشابہ قرار دیا گیا ہے، جو خیر و شر کے دو الگ الگ خالق تسلیم کر کے وہ ایک اور کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ ان لوگوں نے حاکم کی جو مثال پیش کی ہے، وہ اس شراکت کو اور بھی زیادہ موکد کرتی ہے۔
Flag Counter