Maktaba Wahhabi

470 - 645
جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئیں ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب] : ۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت کی دلیل پیش کیجیے۔ دوسری بات:....جوچیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ‘ وہ اس رافضی دعوی کو رد کرتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت کے قتل پر سخت انکاری تھیں ۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کومذمت اور نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتیں اور اس میں شرکت کرنے والوں کو ....خواہ ان کا بھائی محمد بن ابوبکر ہو یا کوئی اور مذموم قرار دیتی تھیں ۔انہوں نے اپنے بھائی محمد بن ابو بکر اور مشارکین قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر بد دعا کی تھی۔ [غلط فہمی کی بناپر اہل حق کا باہم کفر و نفاق کا فتوی]: تیسری بات :....فرض کیجیے صحابہ میں سے کوئی....حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا کوئی اور....غصہ کی حالت میں کوئی ایسی بات کہے؛ اس لیے کہ وہ بعض خرابیوں کا انکار کرنا چاہتا ہو‘ تو اس کی بات کیوں کر حجت ہو سکتی ہے۔[1]اس سے نہ کہنے والے کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ اس کی شان میں جس کے بارے میں وہ لفظ کہا گیا۔ بایں ہمہ وہ دونوں جنتی بھی ہوسکتے ہیں اور اﷲ کے ولی بھی۔ حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو واجب القتل اور کافر تصور کرتا ہے مگر وہ اس ظن میں خطاء کار ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذ کور ہے؛ جو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکے تھے۔صحیح حدیث میں ثابت ہے ان کے غلام نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم ! حاطب بن ابی بلتعہ جہنم میں جائے گا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے جھوٹ بولا ؛ وہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔ ‘‘[2]
Flag Counter