Maktaba Wahhabi

53 - 645
و باطل میں تقسیم ہوتا ہے، اور کلام بھی حق و باطل میں منقسم ہوتا ہے اور لغتِ عرب میں یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک جنس کی دو انواع ہوں ، اور ایک جنس دوسرے سے اخص اور اشرف ہو تو دونوں میں سے خاص نام اشرف کا اور غیر اشرف کا عام ہونا ہوتا ہے۔ جیسے جائز عام اور جائز خاص کا لفظ، مباح خاص اور مباح عام کا لفظ، ذوی الارحامِ عام اور ذوی الارحام خاص کا لفظ۔ حیوانِ عام اور خاص کا لفظ کہ اہل کلام حیوان کا اطلاق غیر ناطق پر کرتے ہیں ۔ کیونکہ ناطق کا لفظ انسان کے ساتھ خاص ہے گو وہ حیوان بھی ہے۔ ایسا ہی انہوں نے جدل اور کلام کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : فلاں صاحبِ کلام اور متکلم ہے۔ جبکہ وہ بغیر علم کے کلام کرتا ہو۔ اسی لیے اسلاف نے اہلِ کلام کی مذمت کی ہے۔ ایس طرح جدل ہے کہ جب کلام حجتِ صحیحہ کے ساتھ نہ ہو تو وہ جدل محض ہوتا ہے، اور تقدیر کو دلیل بنانا بھی اسی باب میں سے ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور ارشاد فرمایا: کیا تم دونوں اٹھ کر نماز نہیں پڑھتے؟ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اگر اس نے چاہا کہ وہ ہمیں اٹھا دے تو ہم اٹھ جائیں گے۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے لوٹ گئے: ﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًاo﴾ (الکہف: ۵۳) ’’اور انسان ہمیشہ سے سب چیزوں سے زیادہ جھگڑنے والا ہے۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں تہجد کے لیے اٹھنے کو فرمایا تو جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے تقدیر کو آڑ بنایا کہ اللہ نے چاہا تو وہ ہمیں اٹھا دے گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیات تلاوت فرمائی۔ [اہل سنت پر تقدیر کے متعلق ایک اور الزام اور اس پر ردّ] [اشکال ۲]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’ اہل سنت کے بیان کے مطابق اﷲ تعالیٰ سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو اطاعت شعاری کے باوصف عذاب دے سکتے ہیں ، اور ابلیس اپنی معصیت کاری کے باوجود اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کسی مقصد کے پیش نظر کوئی فعل انجام نہیں دیتا۔‘‘در ایں صورت اطاعات و عبادات کو انجام دینے والا حد درجہ احمق ہوگا، اس لیے کہ وہ یونہی عبادت میں منہمک رہ کر اپنے آپ کو محنت و مشقت میں ڈالتاہے، مسجدیں اور مہمان خانے بنانے کے لیے اپنا مال پانی کی طرح بہاتا ہے، مگر اس سے اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ بایں ہمہ بعض اوقات اسے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کے عین برعکس اگر وہ انواع و اقسام کے گناہوں کا ارتکاب کرے اور لذت گیر ہوتارہے، تاہم اﷲ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا کر سکتا ہے۔پس پہلے نظریہ کا اختیار کرناہر عقل مند کے نزدیک سراسر حماقت
Flag Counter