Maktaba Wahhabi

425 - 645
پھر آپ نے جب ان کی تعداد دیکھی تو اتنا ہی آپ کو دوبار مزید بھی دیا ۔ تاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہوجائے [اور اس میں کسی قسم کی کمی نہ ہو]۔اس لیے کہ حسب امکان فرمان نبوت کی موافقت کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر اس کا علم حاصل ہوجائے تو ٹھیک ہے ‘ ورنہ اجتہاد سے کام لیا جائے گا۔ باقی رہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعوی ہبہ کا قصہ ؛ اور آپ کا گواہوں کو لانا وغیرہ ۔ اگر اس قصہ کو صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو جو لوگ اس سے مدح کا پہلو نکالنا چاہتے ہیں ‘ ان کے لیے اتنی ہی قدح اس قصہ سے ثابت ہوتی ہے ۔ فصل: ....حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اور لقب صدیق ؟ [اعتراض]: رافضی مضمون نگار لکھتا ہے: ’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ نہ ہی آسمان نے کسی پر سایہ کیا ہوگااور نہ ہی زمین نے کسی کو اٹھایا ہوگا جو ابو ذر سے بڑھ کر سچے لہجے والا ہو۔‘‘[1] [اہل سنت نے] ان کا نام تو صدیق نہیں رکھا؛ جب کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہی نام دیا جانے لگا۔ حالانکہ آپ کے حق میں کوئی ایسی روایت وارد نہیں ہوئی ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب ]: یہ روایت تمام محدثین نے روایت نہیں کی ؛ نہ ہی شیخین نے روایت کی ہے اورنہ ہی اصحاب سنن نے۔ بلکہ اسے اجمالی طور پر روایت کیا گیا ہے۔[2]اور اگر اس کی صحت اور ثبوت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو وہ بعض دیگر حدیث کی کتابوں میں روایت کی گئی ہے ۔ یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ تمام مخلوق سے بڑھ کر سچے ہیں ۔کیونکہ پھر اس سے لازم آتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور باقی سارے انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی بڑھ کر سچے ہوں ۔علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر سچے ہوں ۔یہ بات شیعہ و اہل سنت تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سچے انسان ہیں ؛ ان سے بڑھ کر کوئی سچائی کا طلب گار نہیں ۔ جب کوئی انسان سچائی کی تلاش میں رہتا ہو تو کہاجاتا ہے کہ فلاں سچے لہجے والا ہے ۔ اگرچہ اسے انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات سے بہت کم آگاہی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : آسمان نے کسی ایسے پر سایہ نہیں کیا جو ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر سچائی کی تصدیق کرنے والا ہو۔ بلکہ آپ نے فرمایا ہے : ’’ سچے لہجے والا ۔‘‘ اور صدیق کامعنی یہ ہے کہ جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کی؛ صرف اس کے سچا ہونے کے بنا پر نہیں ؛بلکہ آپ کی مدح انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کرنے کی وجہ سے ہے ۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق تو ایک خاص معاملہ ہے ۔ آپ کی مدح اس تصدیق کی وجہ سے کی جاتی ہے ؛ جو کہ ایک خاص قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ جب کہ کسی انسان کا اپنے من میں سچا ہونا ایک علیحدہ
Flag Counter