Maktaba Wahhabi

594 - 645
تراشی کرنے والا او رخیر القرون پر سر کشی کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ھوسکتا ۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ : ﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ [غافر۵۱] ’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ جب کسی انسان کو ہواپرستی اس حد تک پہنچادے تو وہ عقل کے دائرہ سے بالکل باہر ہوجاتا ہے۔ چہ جائے کہ اس کے پاس علم اور دین ہو۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایسی باتیں کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرے۔ اور اپنے مؤمن بندوں ۔اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او ردیگر۔ کی نصرت فرمائے ۔ او ران ظالموں اور جھوٹوں کے ظلم سے نجات عطا فرمائے ۔ فصل:....اہل سنت پر تعصب کا الزام [اشکال ات]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ بعض اہل سنت نے اس حد تک غلو سے کام لیا حتی کہ یزیدبن معاویہ کو امام تصور کرنے لگے؛ حالانکہ اس نے انتہائی قبیح افعال کا ارتکاب کیا؛اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا؛ ان کے اموال پر قبضہ کرلیا؛اور عورتوں کو قیدی بنالیا۔ اور اہل بیت خواتین کو ننگے اونٹوں پر سوار کرکے مختلف شہروں میں گھمایا۔ جب کہ زین العابدین کے گلے میں طوق پڑا تھا۔ صرف قتل حسین رضی اللہ عنہ پر ہی اکتفاء نہیں کیا ؛ بلکہ آپ کو گھوڑوں کے نیچے کچل ڈالا؛ اور آپ کی پسلیاں توڑ دیں ۔ اور آپ کے سر کو نیزے پر اٹھایا گیا۔ حالانکہ مشائخ نے یہ روایت کیا ہے کہ جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے اس دن آسمان سے خون کی بارش برسی ۔ رافعی نے اپنی کتاب ’’ شرح الوجیز‘‘میں اور ابن سعد نے ’’الطبقات ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ :جس دن حسین رضی اللہ عنہ قتل ہوئے اس دن آسمان میں ایک سرخی ظاہر ہوئی جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اس دن دنیا میں کوئی ایسا پتھر نہیں اٹھایا گیا جس کے نیچے سے خون نہ نکلا ہو۔ آسمان سے ایسی بارش برسی کہ اس کا اثر کپڑوں میں ان کے ختم ہونے تک رہا ۔ امام الزہری فرماتے ہیں : ’’ قاتلین حسین میں سے کو ئی بھی ایسا نہیں بچا جسے دنیا میں سزا نہ مل گئی ہو۔ یا تو اسے قتل کردیا گیا ؛ یا پھر وہ اندھا ہوگیا ؛ یااس کا چہرہ کالا ہوگیا ؛ یا پھر بہت ہی کم مدت میں اس کی حکومت ختم ہوگئی ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی بابت وصیت فرمایا کرتے تھے۔اور فرماتے تھے : یہ دونوں تمہارے پاس میری امانت ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوریٰ۲۳) ’’ فرمادیں : میں قرابت داری کی محبت رکھنے کے سوا تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’ بعض اہل سنت نے اس حد تک غلو سے کام لیا حتی کہ یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter