Maktaba Wahhabi

219 - 645
معاف ہوجاتی ہیں ۔اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ نائب امام کی عصمت کا مسئلہ : یہاں پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فسق کو خبر کے قبول کرنے میں مانع قرار دیا ہے۔ جب کہ نیکی کے کمانے میں فسق مانع نہیں ہوسکتا۔ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ گواہی صرف عادل لوگوں کی ہی قبول کی جائے گی اور اس میں صرف ظاہر پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اگر ولایت میں بھی عادل ہونے کی شرط لگائی گئی تو اس کے لیے ظاہری حالت ہی کافی ہوگی ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ولایت [حاکم ہونے] کے لیے اتنے علم کی شرط نہیں ہے جتنے علم کا ہونا گواہوں کے لیے شرط ہے۔ اس کی وضاحت اس مسئلہ سے بھی ہوتی ہے کہ امامیہ اور دوسرے سارے لوگ امام کے نائب کے لیے غیر معصوم ہونے کو جائز سمجھتے ہیں ؛ اگرچہ امام کو اپنے نائبین کے گناہوں کا علم نہ ہو۔اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن معیط کو والی مقرر فرمایا‘ پھر اس نے واپس آکر ان لوگوں کی طرف سے جنگ شروع کرنے کی خبر دی جن کے پاس آپ کو بھیجا گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿یٰاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (الحجرات :۶) ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی کمزور بیان والا خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پریشانی اٹھاؤ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبین میں سے بہت سارے ایسے تھے جو آپ کے ساتھ خیانت کرتے تھے ‘ اور بہت سارے آپ سے بھاگ گئے تھے۔ آپ کے نائبین کا کردار کسی سے مخفی نہیں ۔اس سے معلوم ہوگیا کہ ایسے مفاسد کی موجودگی میں بھی ظاہر پر اعتبار کرنے میں امام معصوم کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اور ائمہ کے لیے معصوم ہونے کی شرط ایسی شرط ہے جو نہ شریعت میں مامور بہ ہے ؛اور نہ ہی [احوال کے لحاظ سے ] مقدوربہ ہے ۔ اور ایسی شرط سے نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوا اورنہ ہی کوئی اخروی فائدہ حاصل ہوا۔ جیسا کہ بہت سارے عبّاد جواپنے مشائخ کے لیے ایسے امور کا عالم ہونا شرط لگاتے ہیں جنہیں بشریت میں کوئی دوسرا انسان نہیں جان سکتا ؛ تو یہ لوگ اپنے مشائخ کے لیے بھی اس جنس کی صفات کا ہونا شرط لگاتے ہیں جو امام معصوم کے لیے امامیہ شرط لگاتے ہیں ۔ لیکن انجام کار یہ ہوتا ہے کہ ایسی شرطیں لگانے والے کسی جاہل اور ظالم شیخ کے پیروکار بن کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہی حال شیعہ کا ہے آخر میں یہ لوگ بھی کسی ظالم و جاہل حاکم کوہی قبول کرلیتے ہیں ۔ ان کی مثال اس بھوکے انسان کی ہے جو شرط لگادے کہ وہ اس شہر کا کھانا اس وقت تک نہیں کھائے گا جب تک اس کے لیے جنت کے کھانوں جیسا کھانا پیش نہ کیا جائے۔ پھر اس کو کسی صحرا کی طرف نکال دیا جائے ‘ تووہاں پر اسے چوپائیوں کے چارے
Flag Counter