Maktaba Wahhabi

129 - 645
’’اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں ، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘ معقبات کی تفسیر میں دو اقوال ہیں : ۱۔ ایک یہ کہ یہ اللہ کے امر میں سے ہیں جن کی وہ حفاظت کرتے ہیں ۔ ۲۔ دوسرا یہ کہ وہ اس کی اللہ کے اس امر سے حفاظت کرتے ہیں جو وارد ہوا ہے اور حاصل نہیں ہوا۔ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں کہ اس تک پہنچے اور ان کا حفاظت کرنا اللہ کے امر سے ہے۔ [شبہ :....نقیضین کا ارادہ ربانیہ ؛ اور اس پر ردّ: ] چہارم :....[شبہ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اس سے اﷲتعالیٰ کے بارے میں یہ لازم آتا ہے کہ وہ نقیضین کا ارادہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ معصیت بھی اللہ کی مراد ہے اور اس سے روکنا بھی اس کی مراد ہے۔‘‘ [جواب]: [یہ شبہ سرے سے ]ناقابل اعتبار بات ہے۔ اس لیے کہ ان دوچیزوں کو باہم نقیض قرار دیتے ہیں جن کا اجتماع اور ارتفاع محال ہو یا وہ دو چیزیں جن کا باہم جمع ہونا ممکن نہ ہو ان کو ایک دوسرے کی ضد بھی کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زجر و عتاب اس امر کے بارے میں نہیں ہوتا اور نہ وہ مراد ہے۔جو وقوع پذیر ہوچکا ہو اور اس کا ارادہ بھی کر لیا گیا ہو۔ بخلاف ازیں زجر کی حیثیت ماضی کے اعتبار سے سزا کی ہوتی ہے اور مستقبل کے لحاظ سے زجر و توبیخ کی ۔ جو زجر اس کے حسب ارادہ ہوتا ہے ، اگر اس سے امر مقصود حاصل ہوجائے تو اس سے صرف زجر مراد ہوتا ہے، اور اگر مقصود حاصل نہ ہو تو یہ زجر کامل نہیں ۔ جس طرح کسی کو تلوار سے مارنے کا ارادہ کیا جاتا ہے اور کسی کو زندہ رکھنے کا۔ اور جس طرح اس مہلک مرض کا ارادہ کیا جاتا ہے جوبعض اوقات موت کا باعث بنتا ہے اور اس سے زندگی کا ارادہ بھی کیا جاتا ہے۔ ٭ سو سبب کا ارادہ مسبب کے ارادہ کو موجب نہیں ۔ مگر جبکہ سبب موجب تام ہو اور زجر یہ رکنے کا سبب ہے جیسا کہ دوسرے اسباب ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ مرض موت کا سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ فعل کا امر اور اس کی ترغیب اس کے وقوع کا سبب ہوتی ہے۔ پھر کبھی تو مسبب واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا۔ سو اگر تو واقع ہو تو دونوں مراد ہوں گے وگرنہ صرف خاص وہ مراد ہو گا جو اقع ہو۔ پنجم:....یہ گزر چکا ہے کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں ایک مخلوق کی مشیئت کے معنی میں ہے اور یہ ہر حادث کو شامل ہے نا کہ غیر حادث کو اور ایک مامور بہ کی محبت کے معنی میں ہے اور یہ طاعات کے متعلق ہے۔ تب پھر واقع ہونے والی معصیت پہلے معنی میں ہو گی۔ کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ سو جو بھی ہوا اس نے اس کے ہونے کو چاہا۔ سو معاصی پر زجر یہ دوسرے معنی میں ہے کہ وہ نہی عن المنکر کو محبوب رکھتا اور اسے پسند کرتا ہے اور اس کے فاعل کو ثواب بخشتا ہے۔ بخلاف نفس منکر کے کہ وہ نہ اسے محبوب ہے اور نہ پسند ہے اور نہ وہ اس کے فاعل کو ثواب دے گا۔ پھر زجر غیر واقع سے ہوتی ہے اور عقوبت ما وقع پر ہوتی ہے سو جب قضاء و قدر سے سرقد واقع ہو جائے گا اور رب تعالیٰ نے اس پر حد قائم کرنے
Flag Counter