Maktaba Wahhabi

610 - 645
کہ ان کا گمان یہ ہو کہ جنگ کرنے سے مطلوب مصلحت حاصل ہوسکتی ہے؛ مگر وہ جنگ قتال سے حاصل نہ ہو۔ بلکہ فساد پہلے سے زیادہ بڑھ جائے۔ تو پھر آخر میں اس پر یہ واضح ہوکہ بہتری اسی میں تھی جس کا حکم شارع علیہ السلام نے شروع میں حکم دیا تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن تک نصوص شریعت نہیں پہنچیں ؛یا ان کے ہاں یہ نصوص ثابت نہیں ہو سکیں ۔اور بعض کی نظر میں یہ نصوص منسوخ تھیں ؛ جیسے ابن حزم۔اور بعض لوگ ان کی تأویل کا شکار تھے۔ جیسا کہ بہت سارے مجتہدین سے بہت ساری نصوص کے بارے میں پیش آیا ہے۔ پس ان تین وجوہات کی بنا پر بعض اہل استدلال نے ان بعض نصوص پر عمل کو ترک کردیا تھا۔ یا تووہ ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔یہ پھر وہ ان کے مورد استدلال پر دال نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔یا پھر ان کا عقیدہ تھا کہ یہ نصوص منسوخ ہیں ۔ [اقتدار کا فتنہ اور اسلامی تعلیمات] یہ جاننا ضروری ہے کہ ان فتنوں کے اسباب مشترکہ ہوتے ہیں ۔ پس دلوں پر ایسے خیالات وارد ہوتے ہیں جو انہیں حق کی معرفت اور اس کے ارادہ سے روک دیتے ہیں ۔ اسی لیے ایسے لوگ اہل جاہلیت کی منزلت پر شمار ہوتے ہیں ۔ جاہلیت میں نہ ہی حق کی معرفت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا قصدو ارادہ۔ جبکہ اسلام علم ِ نافع اور عمل صالح لیکر آیا ہے۔ جس میں حق کی معرفت اور اس کا قصد شامل ہیں ۔ پس اسلام اس بات پر متفق ہے کہ بعض حکمران اپنی ترجیحات کی خاطرایسا ظلم کرتے ہیں کہ نفوس اس پر صبر نہیں کرسکتے۔اور نہ ہی ان کے ظلم سے دفاع اس سے بڑے فساد اورخرابی کے بغیر ممکن ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو اپنے حق کا حصول اور ظلم سے دفاع پسندیدہ ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اس عمومی خرابی پر نظر نہیں ڈالتا جو اس کے فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوگی۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ’’ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو فوقیت دی جائے گی ، پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو اور میری تم سے ملاقات حوض پر ہو گی ۔‘‘[متفق علیہ ؛ سبق تخریجہ ] اور صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛سنا ،انہوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں شخص کی طرح مجھے بھی آپ حاکم بنا دیں ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میرے بعد [دنیاوی معاملات میں ] تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اس لیے صبر سے کام لینا ، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو ۔‘‘[1]
Flag Counter