Maktaba Wahhabi

194 - 645
سمعی طور پر اس لیے لازم ہیں کہ وہ کلام اس جگہ کی صفت ہیں ؛ اللہ کی نہیں ۔ ۳۔ پس وہ ایسی چیز کا منادی ہوگا جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔پس درایں صورت وہ درخت جس میں اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے لیے آواز پیدا کی تھی ؛ وہی اس قول کا قائل ہوگا: ’’إننی أنا اللہ ۔‘‘پھر یہ آواز دینے والی ہستی اللہ تعالیٰ کی نہیں ہوگی ۔اور اس سے لازم آئے گا کہ آپ اس کلام کرنے والے درخت کو ہی حضرت موسی علیہ السلام سے ہم کلام کہیں ؛ اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نہ ہی متکلم ہوں اور نہ ہی منادی اور مناجی۔ جب کہ یہ باتیں دین اسلام ضرورت کے تحت معلوم شدہ عقائد کے خلاف ہیں ۔ اور یہ ساری تفصیل دوسری جگہ پر بیان ہو چکی ہے۔ ۲۔ پھر یہ کہ اگر وہ ازل میں متکلم نہیں تو پھر اس کی نقیض سے متصف ہو گا جو سکوت یا گونگا پن ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں : اگر اس کا کلام مخلوق ہے تو پھر اگر اس نے کلام کو ایک محل میں پیدا کیا ہے تو یہ اس محل کا کلام ہو گا اور اگر اس نے کلام کو قائم بنفسہ بنایا ہے تو صفت اور عرض قائم بنفسہ ٹھہریں گے اور اگر اس نے کلام کو خود اپنے میں پیدا کیا ہے تو لازم آئے گا کہ اس کی ذات محلِ مخلوقات ہو۔یہ تینوں لوازم باطل ہیں ؛اور کلامِ الٰہی کے مخلوق ہونے کے قول کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ ساری تفصیل دوسری جگہ پر بیان ہو چکی ہے۔ پس جب ان کے نزدیک یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کلام کا قیام صرف متکلم کے ساتھ ہوتا ہے، اور وہ معتزلہ کی ہم نوائی میں یہ بھی کہتے ہیں کہ حوادث ذات قدیم کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتے، تو ان ہر دو قواعد سے کلام کا قدیم ہونا ثابت ہوگیا۔ کیا اصوات قدیم ہیں ؟: اشاعرہ کے نزدیک اصوات کا قدیم ہونا ممتنع ہے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صوت (چونکہ عرض ہے اس لیے وہ دو) زمانوں تک باقی نہیں رہ سکتی۔ بنا بریں یہ بات متعین ہوگئی ہے کہ کلام قدیم ایک معنوی چیز ہے اور حرف و صوت سے عبارت نہیں ، اندریں صورت وہ ایک ہی صفت سے متصف ہوگا اگر وہ ایک سے بڑھ جائے تو اسے غیر محدود ماننا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ غیر متناہی معانی کا وجود ممتنع ہوتا ہے۔یہ ان کے عقیدہ کی اصل ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم اس بات میں تمہارے ہم خیال ہیں کہ جو چیز اﷲتعالیٰ کی مراد و مقدور ہو وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتی۔ تاہم ہم یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کلام ا لٰہی اس کا پیدا کردہ مگر اس سے منفصل ہے۔تمہارے ذکر کردہ اصول کی بنا پر اس سے ہمارے ساتھ مناقضہ لازم آتاہے۔ اگر کسی طرح جمع و تطبیق ممکن ہو تو تناقض رفع ہو جائے گا۔ تطبیق ممکن نہ ہونے کی صورت میں ہمارے ان دونوں مسئلوں میں سے ایک کو مبنی برخطا تسلیم کرنا پڑے گا، یہ ضروری نہیں کہ وہی مسئلہ غلط ہو جس میں ہم نے تمہاری مخالفت کی ہے۔ بخلاف ازیں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ جس مسئلہ میں ہم متحدالخیال ہیں وہی درست نہ ہو ۔یعنی کہ اﷲتعالیٰ اپنی مشیت و قدرت کے مطابق وہ کلام نہیں کرتا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔حالانکہ جمہور اہل الحدیث ، متکلمین کرامیہ اور شیعہ سب یہی عقیدہ رکھتے ہیں بالفاظ صحیح تریوں کہنا چاہیے کہ اکثر اسلامی فرقے اس کے قائل ہیں ۔
Flag Counter