Maktaba Wahhabi

92 - 645
جب بندے سے طاعت ہونا بایں معنی ہے کہ بندے نے اپنی قدرت و مشیئت سے یہ طاعت بجا لائی ہے۔ تو یہ بات ممتنع نہ ہو گی اللہ نے اسے اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ طاعت کا فاعل بنایا ہے۔ بلکہ عقل و شرع دونوں اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت خلیل علیہ السلام کا ارشاد ہے: ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابراہیم: ۳۰) ’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا﴾ (السجدۃ: ۲۳) ’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے۔‘‘ اس لیے بھی کہ بندے کا فاعل ہونا بعد اس بات کے کہ وہ فاعل نہ تھا کہ یہ ایک امر حادث ہے اور امرِ حادث کے لیے ایک محدث کا ہونا لازم ہے اور بندے حق میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اپنے فاعل ہونے کا فاعل بھی وہ خود ہو۔ کیونکہ اس کا فاعل ہونا اگر تو اس کے نفس فاعل ہونے سے حادث ہوا ہے تو لازم آئے گا کہ ایک چیز بغیر پیدا کرنے والے کے از خودپیدا ہو گئی ہو اور یہ بات ممتنع ہے۔ اور اگر وہ کسی دوسری فاعلیت کی بنا پر فاعل ہوا ہے؛ پھر اگر تو یہ دوسری فاعلیت پہلی فاعلیت سے پیدا ہوئی ہے تو اس سے دورِ قبلی لازم آئے گا اور اگر یہ پہلی فاعلیت کے بغیر حادث ہوا ہے تو امورِ متناہیہ میں تسلسل لازم آئے گا اور یہ دونوں باتیں ہی باطل ہیں ۔پس معلوم ہوا کہ بندے سے ایسی طاعت و معصیت کا ہونا کہ جس سے وہ مدح و ذکر اور ثواب و عقاب کی مستحق ٹھہرے، یہ اس بات کو مانع نہیں کہ وہ ہر بات رب تعالیٰ کا محتاج ہو اور کسی بابھی اس سے بے نیاز نہ ہو اور یہ کہ اس کے جملہ امو رکا خالق اللہ ہو اور یہ کہ بندے کے حوادث و ممکنات میں سے نفس افعال اللہ کی قدرت و مشیئت کی طرف منسوب ہوں ۔ فصل:....کافر کا کفر اور اہل سنت پر الزام کا ردّ [ اہل سنت کے تقدیر کے بارے میں عقیدہ پر رافضی کا کلام کہ کافر کفر کر کے بھی رب تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہے کیونکہ وہ رب تعالیٰ کی مراد کو بجا لایا ہے]۔ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہلِ سنت کے افکار و آراء سے لازم آتا ہے کہ: کافر اپنے کفر کے باوصف اطاعت شعار ہو اس لیے کہ اس نے جو کچھ بھی کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق کیا ہے۔کیونکہ رب تعالیٰ نے اس سے کفر کا ارادہ کیا اور وہ کفر کر رہا ہے اور وہ اس ایمان کو نہیں لایا جو رب تعالیٰ کو اس سے نا پسند ہے۔ سو اس نے رب تعالیٰ کی طاعت کی ہے اور اسے ایمان لانے کو کہہ کر نبی نا فرمان ٹھہرے گا کیونکہ نبی اسے اس ایمان لانے کو کہہ رہا ہے جو اللہ کو اس کافر سے پسند نہیں اور اس کو اس کفر سے روک رہا ہے جو اللہ اس کافر سے چاہتا ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔
Flag Counter