Maktaba Wahhabi

61 - 645
جہمیہ اور قدریہ کے قول کے موافق ان لوگوں کے کلام میں اس قسم کے تناقضات بے شمار ہیں ۔ البتہ یہ جمہور اہلِ سنت کا قول نہیں واللہ اعلم۔ بعض صفات باری تعالیٰ اور رافضی اعتراض پر رد: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت کے بقول یہ لازم آتا ہے، کہ ذات حق کو غفور و حلیم اور عفو کے صفات سے متصف نہ کیا جائے‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان صفات سے اس صورت میں موصوف ہو سکتا ہے، جب وہ فساق و فجار کو سزا دینے کا مستحق ہو اور جب وہ یہ سزا معاف کر دے تو اسے غفور و حلیم کے اسماء حسنیٰ سے ملقب کیا جائے، ظاہر ہے کہ وہ فساق کو سزا دینے کا مستحق جبھی ہوگا کہ گناہ بندے سے سرزد ہوں نہ کہ اﷲ تعالیٰ سے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:اس کا جواب کئی طریق سے ممکن ہے: پہلا جواب:بہت سے اہل سنت کہتے ہیں ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ غفور و حلیم کے القاب سے اﷲ تعالیٰ کو اسی وقت ملقب کیا جا سکتا ہے جب وہ فساق کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہو۔ استحقاق سے قطع نظر۔ کیونکہ ان امور کے ذریعے استحقاق کو خاص کرنا اس بات کو مقتضی ہے کہ وہ کسی شے کا تو مستحق ہے اور کسی شے کا نہیں ، اور یہ بات خود ان کے نزدیک ممنوع ہے۔ بلکہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اور جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ جب وہ سزا دینے کی قدرت رکھتا ہو اس لیے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو حکم دینا چاہتا ہے دیتا ہے۔ تو اس سے مغفرت، رحمت اور حلم و عفو وغیرہ درست ہوا۔ دوسرا جواب: قائل کا یہ قول کہ ’’ اﷲ تعالیٰ انسان کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہو۔‘‘ اس سے اس کی مراد یا تو یہ ہے کہ گناہ گاروں کو سزا دینا اس کا عدل ہے یا یہ کہ اﷲ تعالیٰ اس کا محتاج ہے۔ پہلی بات پر سب کا اتفاق ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ عفو و مغفرت اس کے فضل و احسان کی آئینہ دار ہے۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کو افعال العباد کا خالق قرار دیتے ہیں ، ان کا یہی زاویہ نگاہ ہے جو لوگ افعال العباد کے متعلق یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ اﷲ کی مخلوق ہیں اور بندہ صرف ان کاکا سب ہے، وہ بھی اس بات میں متحد الخیال ہیں کہ سزا اس کے عدل پر مبنی ہے۔اور اگر اس سے باری تعالیٰ کا محتاج ہونا مراد لیا جائے تو پھر اس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ تیسرا جواب:یہ کہا جائے گا کہ: اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے متعلق دو صورتیں ممکن ہیں : ۱۔ پہلی صورت: اﷲ تعالیٰ رحمت و مغفرت کے ساتھ موصوف ہے اور سزا دینا اس کے لیے قبیح ہے۔ ۲۔ دوسری صورت: اﷲ تعالیٰ رحمت و مغفرت سے تب ہی موصوف ہوسکتا ہے، جب سزا دینا اس کیلئے جائز ہو۔ پہلی صورت کے مطابق لازم آئے گا کہ وہ اہل ایمان اور نیک اعمال انجام دینے والوں کے لیے غفار نہیں ، اس لیے کہ ان کو سزا دینا قبیح ہے اور ان کی مغفرت واجب ہے۔ مزید برآں اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ ذات باری تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے لیے غفور و رحیم نہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی رحیم و کریم نہیں جو گناہ کر کے ان سے تائب ہو جائیں اور نیک کام کرنے لگیں ۔کیونکہ اب ان کو سزا دینا ایک قبیح فعل ہوگا۔اور ان کے لیے رحمت اور مغفرت اس عقیدہ والوں کے
Flag Counter