Maktaba Wahhabi

520 - 645
حاصل ہو گیا ؛اور لوگ آپ کے ہاتھ پر جمع ہوگئے ؛ توآپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کو قتل نہیں کیا ؛ اگرچہ انہیں قتل کرنا واجب بھی تھا؛ اوراب آپ کو قدرت و اختیار بھی حاصل تھا؛ تو مسلمانوں سے جنگ کیے بغیر یہ کام کر گزرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے ساتھیوں سے جنگ کرنے کی نسبت زیادہ اولی واسہل تھا۔اور اگر معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل بھی کردیتے تو اتنا بڑا فساد نہ پیدا ہوتا جتنا صفین کی راتوں میں ہوا تھا۔ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں معذور تھے؛ خواہ اپنے عجز و کمزوری کی وجہ سے یا پھر فتنہ برپا ہونے کے اندیشہ سے ؛ کیونکہ اس سے پھر جماعت بندی کا شیرزارہ بکھر جاتا [اور لوگ بغاوت کرجاتے] اور آپ کی حکزمت کمزور ہوجاتی ۔توحضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عذر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عذر سے زیادہ مقبول ہے ۔ اس لیے کہ فتنہ گروں اور فسادیوں کوقتل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس سے مزید فتنہ پیداہوتا ؛ اختلاف پیدا ہوتا ؛ حکومت کمزور ہوجاتی ؛ خواہ اس بارے میں جتنی بھی سخت کوششیں کی جائیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ فتنہ کے شر و فساد کاصحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب فتنہ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب فتنہ برپا ہورہا ہوتا ہے اس وقت وہ خوبصورت نظر آتاہے؛ اورلوگ گمان کرتے ہیں کہ اس میں خیر و بھلائی ہوگی۔ جب انسان اس کے شر و فساد کی تلخی کوچکھ لیتے ہیں تو اس کے نقصانات ظاہر ہوتے ہیں ۔ دونوں گروہوں کی طرف سے جو لوگ اس فتنہ میں شریک ہوئے ؛ انہیں اس جنگ کے نتیجہ میں پیداہونے والے حالات کا علم نہیں تھا ۔ اورانہیں اس فتنہ کے بپا ہونے تک اس کی تلخی کا اندازہ نہیں تھا۔یہاں تک کہ یہ واقعات ان لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے درس عبرت بن کر رہ گئے ۔ جو کوئی مسلمانوں کے مابین واقعہ ہونے والے فتنوں کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے تو اس کے لیے واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے ان فتنوں میں شرکت کی ہو‘ اور ان کی وجہ سے اس کا انجام کار قابل تعریف رہا ہو۔ اس لیے کہ ان فتنوں میں دین و دنیا کا نقصان ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فتنوں میں شرکت سے منع کیا تھا‘ اور ان سے بچ کر رہنے کا حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ ’’ان لوگوں کوڈرنا چاہیے جوآپ کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔‘‘ [النور۶۳] [حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق شبہ او راس کا جواب]: معترض کا یہ کہنا کہ: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ شروع کی۔‘‘ [تو اس کا جواب یہ ہے کہ ] ان لوگوں نے آپ کی اطاعت اور بیعت سے اپنے ہاتھ کو روکا ؛ اور آپ کو ظالم اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کا شریک قرار دینے لگے ۔ آپ کے بارے میں جھوٹے لوگوں کی گواہی قبول کی ۔اور آپ کی طرف ایسی باتیں
Flag Counter