Maktaba Wahhabi

160 - 645
بعد دوسری مسافت قطع ہوتی ہے۔ لہٰذا فلک کے لیے ہر وقت اس ارادہ اور قوت کا ہونا لازم ہوا جس کے ذریعے وہ حرکت کرتا ہے؛ لیکن لازم ہے کہ اس کا مجدد اس کا غیر ہو۔ کیونکہ وہ ممکن ہے نہ کہ واجب اور اس میں حوادث کا اس سے ہونا ناجائز ہو گا۔ کیونکہ اگر اس نے پہلے کے بعد دوسرے کو حادث کیا ہے تو دوسرے کے وقت موثر تام کا ہونا لازم ہوا۔ چاہے اسے پہلے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے کو حادث کیا ہو۔ چاہے اسے پہلے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے میں کمالِ تاثیر حاصل ہوا ہو۔ سو اس کمال کا فاعل ہونا لازم ہوا۔ اور یہ لوگ اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ ماتقدم اس کا فاعل ہو۔ لہٰذا ہر حال میں ایک فاعل کا ہونا لازم ہوا جو اس امر کو حادث کرے جس سے حرکت حاصل ہو اور یہ واجب بنفسہ کے خلاف ہے، کیونکہ جو افعال اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ان کا غیر سے صدور جائز نہیں ہوتا۔ [فلاسفہ اور معطلہ کا شرک :] ان فلاسفہ کا شرک و تعطیل قدریہ کے شرک و تعطیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ لوگ فلک کو ان حوادث کا محدث قرار دیتے ہیں جو ساری زمین میں برپا ہوتے ہیں ۔ انھوں نے اللہ کو کسی شے کا بھی حادث نہیں ٹھہرایا۔ بخلاف قدریہ کے کہ انھوں نے حیوان کے افعال کو اور جو اس سے پیدڈا ہوتا ہے، اس کو اس کے احداث سے نکالا ہے۔ سو حوادث کو بلامحدث کے ثابت کر کے، اور رب تعالیٰ کو کسی بھی حادث سے معطل کر کے اور ایک شریک کو ثابت کر کے انھیں تعطیل لازم آئی جو جمیع حوادث کا فاعل ہے۔ مگر تعجب ہے کہ وہ قدریہ کے اس قول کو تسلیم نہیں کرتے کہ ’’ اﷲتعالیٰ اس عالم کو پیدا کرنے سے قبل بیکار تھا۔‘‘ فلاسفہ کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ پہلے بھی افعال سے معلل رہا ہے اور بدستور اسی حالت پر قائم ہے؛ بلکہ اس کا کوئی بھی کام نہیں ۔ جو چیزیں لوازم ذات میں داخل ہیں ، مثلاً عقل و فلک یہ اس کا فعل نہیں ، کیونکہ فعل کا ظہور تدریجی طور پر ہوتا ہے، جو چیز ذات کے لوازم میں سے ہو وہ صفات کے قبیل سے ہوتی ہے، مثلاً انسان کا رنگ اور درازیِء قد۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کا فعل نہیں ، بخلاف ازیں اس کی حرکات کو اس کا فعل قرار دے سکتے ہیں ، اگرچہ یہ حرکات بھی اس کے لیے مقدر تھیں ۔جیسے نفس انسانی کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں ۔ اور بیشک دل میں سب سے زیادہ تغیرات رونما ہوتے ہیں ، وہ اس ہنڈیا کی طرح ہے جو ابلتے ہوئے جوش و خروش کا پیکر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ فاعل کی تعریف: خلاصہ کلام! فاعل دراصل وہ ہے جس کے ساتھ کوئی فعل وابستہ ہو اور اس فعل کا ظہور اس سے تدریجاً ہو۔ بخلاف ازیں جس کے ساتھ کوئی وصف ازل ہی سے مقارن چلا آرہا ہو؛اس وصف کا اس کا فعل ہونا معقول نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ فلاسفہ اصلاً اﷲ کے لیے کسی فعل کا اثبات کرتے ہی نہیں اور بایں طور پر وہ اصلی اور حقیقی معطلہ ہیں ۔ ارسطو اور اس کے اتباع صرف علت اولیٰ کے قائل ہیں ، اور وہ بھی اس لیے کہ وہ حرکت افلاک کی علت غائی ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ حرکت فلک انسانی حرکت کی طرح اختیاری ہے، لہٰذا اس کے لیے کسی مراد و مطلوب کا وجود ناگزیر ہے۔
Flag Counter