Maktaba Wahhabi

132 - 645
﴿فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ (ابراہیم: ۳۷) ’’سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں ۔‘‘ اور جنابِ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام فرماتے ہیں : ﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ (البقرۃ: ۱۲۸) ’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا﴾ (الانبیاء: ۷۳) ’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۳۱) ’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘ غرض کتاب و سنت میں اس کی متعدد مثالیں ہیں ۔ انسانی ارادہ اور مشیت ایزدی : سابق الذکر بیانات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ بندے کا ارادہ ومشئیت اپنی جگہ پر درست ہے مگر مشیت ایزدی کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اور یہ دونوں باتیں برحق ہیں ۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بندے کو نہ کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ مشیئت، یا اسے کوئی قدرت حاصل نہیں ، یا بندے نے وہ فعل نہیں کیا یا اس کی قدرت کا اس فعل میں کوئی اثر نہیں اور اس نے اپنے تصرفات کو حادث نہیں کیا۔ تو اس نے ضرورت اولیٰ کے موجب کا انکار کیا۔اور جو یہ کہتا ہے کہ بندہ کا ارادہ اور فعل بغیر کسی ایسے سبب کے حادث ہوا ہے جو اس کے حدوث کو مقتضی ہو اور اسے بندے نے حادث کیا ہے اور اس فعل کے اِحداث کے وقت اس کا حال ویسا ہی تھا جیسا کہ اس کے اِحداث سے قبل تھا بلکہ وہ دو میں سے ایک زمانہ کو احداث کے ساتھ بغیر کسی ایسے سبب کے خاص کرتا ہے جو اس کی تخصیص کو مقتضی ہو، اور یہ کہ بندہ فاعل، ایجاد کنندہ اورارادہ کنندہ بن گیا جبکہ وہ پہلے نہ تھا بغیر کسی چیز کے جس نے اسے فاعل محدث بنایا ہو، تو اس نے بغیر کسی فاعل کے حوادث کے حدوث کاعقیدہ اختیارکیا۔ جو لوگ کہتے ہیں :ارادہ کی کوئی علت نہیں ہوتی؛ تو ان کایہ قول بے حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارادہ ایک حادث چیز ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ایک محدث کا وجود از بس ناگزیر ہے۔ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ بلا سبب اور کسی محل کے بغیر ارادہ کو عالم وجود میں لاتا ہے،اور بغیر ایسے سبب کے
Flag Counter