Maktaba Wahhabi

605 - 645
عذاب سے ڈرتے رہو۔‘‘[رواہ احمد و ابن ابی الدنیا] افاضل مسلمین فتنہ کے دور میں خروج اور قتال سے منع کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر؛ اور سعید بن مسیب اور حضرت علی بن حسین رحمہم اللہ ؛ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات حرہ والے سال یزید کے خلاف خروج سے منع کرتے رہے۔ اور جیسا کہ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور دیگر حضرات ابن اشعث کے فتنہ کے دور میں خروج سے منع کرتے تھے۔ اسی لیے اہل سنت کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کی روشنی میں فتنہ کے دور میں قتال ترک کرنے پر استقرار حاصل رہا۔ اوروہ اس مسئلہ کو اپنے ہاں عقائد میں ذکر کرتے رہے۔ اورحکمرانوں اس ظلم پر لوگوں کو صبر کرنے اور قتال ترک کرنے کی تلقین کرتے رہے۔اگرچہ فتنہ کی لڑائیوں میں بہت سارے اہل علم اور اہل دین حضرات شامل بھی ہوگئے تھے۔ اہل بغاوت سے قتال اور اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے قتال کا باب فتنہ کے بارے میں کفار سے قتال کے باب سے مشابہت رکھتا ہے۔اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ اور جو کوئی اس باب میں وارد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث میں غور و فکر کرتا ہے؛ تو یقیناً وہ اہل بصیرت لوگوں کی سی عبرت حاصل کرتا ہے۔ اور وہ جان لیتا ہے کہ جو کچھ احادیث نبویہ میں وارد ہوا ہے ؛ وہ بہترین امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا؛ کیونکہ اہل عراق نے آپ کو بہت زیادہ خطوط لکھ کر بلایا تھا؛ تواہل علم اور اعلی فاضل دین دار لوگوں نے آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا؛ جیسے عبداللہ بن عمر؛ ابن عباس؛ اور ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث۔ ان کا غالب گمان یہی تھا کہ آپ کو قتل کردیا جائے گا۔ حتی کہ بعض نے تو الوداع کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا: ’’ اے قتل ہونے والے ! ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۔‘‘ بعض نے کہا تھا: ’’اگر شفاعت کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں آپ کو پکڑ لیتا ؛ اور اس خروج سے منع کرتا۔‘‘ ان لوگوں کا مقصد آپ کی نصیحت اور خیرخواہی تھا؛ اوروہ آپ کی اور مسلمانوں کی مصلحت چاہتے تھے۔ اللہ اور اس کا رسول اصلاح کرنے کا حکم دیتے ہیں ؛ فساد کا نہیں ۔ لیکن رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط۔ پس بعد میں واضح ہوگیا کہ معاملہ ویسے ہی ہوا جیسے یہ حضرات فرما رہے تھے؛ اس خروج میں نہ ہی کوئی دین کی مصلحت تھی اور نہ ہی دنیا کی مصلحت ۔ بلکہ ان ظالم اور سر کش لوگوں کو نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھانے کا موقع مل گیا۔ حتی کہ آپ کو انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا۔ اوریہی فساد آپ کے خروج اور قتل میں تھا جو کہ اگر آپ اپنے علاقہ میں بیٹھے رہتے ؛ تو کبھی بھی پیدا نہ ہوتا۔ اس لیے کہ آپ نے جس خیر و بھلائی کے حصول اور شر اوربرائی کے خاتمہ کاارادہ کیا تھا؛ وہ تو نہ ہوسکا۔ بلکہ آپ کے خروج اور قتل سے شر مزید بڑھ گیا۔اس کی وجہ سے خیر کم ہوگئی۔ اور بہت بڑا شر پیدا ہوگیا۔ بلا شک و شبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے بڑے فتنے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے فتنے پیدا ہوئے تھے۔
Flag Counter