Maktaba Wahhabi

607 - 645
حضرات نے اس کی کوئی تعریف کی ہے؛ بلکہ انہوں نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کر لیا تھا۔ یہ حدیث ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات نبوت میں سے ایک ہے۔اس لیے کہ اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس کردار کا ذکر کیا گیا؛ اور اس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔پس جو کچھ آپ نے بیان فرمایا؛ اور جس پر تعریف کی ؛ وہ تیس سال بعد ویسے ہی حق اور سچ ثابت ہوا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے مابین صلح کراناسن ۳۱ھ میں پیش آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت رمضان ۳۰ ھ میں ہوئی۔ اور جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً سات سال تھی۔ آپ کی پیدائش سن ۳ہجری کو ہوئی تھی اورحضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فتح طائف والے سال مسلمان ہوئے۔ غزوہ طائف فتح مکہ کے بعد پیش آیا تھا۔ یہ حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کچھ فرمایا ہے؛ یہ سن آٹھ ہجری کے بعد کا واقعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیس سال بعد تک خلافت نبوت تھی۔ تو اس فرمان کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے کہ آپ نے موت سے قبل یہ جملے ارشاد فرمائے تھے۔ اسی مناسبت سے ایک وہ صحیح روایت بھی ہے جو سلیمان تیمی نے ابو عثمان نہدی سے روایت کی ہے؛ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیتے اور فرمایا کرتے : ’’ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ؛ تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ [سبق تخریجہ ] اس حدیث میں حضرت حسن اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما کے مابین جمع ہے۔اوریہ خبر دی گئی ہے کہ آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی ہے کہ وہ بھی ان دونوں سے محبت کرے۔ ان دونوں حضرات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صحیح احادیث کی روشنی میں مشہور و معروف ہے۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؛فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بابت فرمایا: ’’ اے اللہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں ‘پس تو بھی اس سے محبت کر ۔‘‘[1] صحیحین میں زہری سے روایت ہے؛ وہ حضرت عروہ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا: ’’ مخزومیہ خاتون[فاطمہ بنت اسود] جس نے[غزوہ فتح کے موقع پر]چوری کر لی تھی ، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا ۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے ؟آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں ۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا ....‘‘ [2]
Flag Counter