Maktaba Wahhabi

540 - 645
بھی ایک روایت ہے؛ اور دوسری روایت یہ ہے کہ : جب انسان دس تاریخ سے پہلے مکہ پہنچ جائے تو وہ حلال ہو جاتا ہے؛ بھلے وہ قربانی اپنے ساتھ لایا ہو۔ جبکہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کامشہور مذہب اور دیگر علماء کاقول یہی ہے کہ جو کوئی قربانی ساتھ لایا ہو؛ وہ یوم نحر کو ہی حلال ہو گا۔ [المغنی ۳؍۳۵۱] حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹنا حجۃ الوداع والے سال پہلے کا واقعہ ہے ؛ یا توعمرہ قضاء والے سال کا ہے ؛ تو پھر اس صورت میں امیر معاویہ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے؛ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے؛ مگر اس قول کی صحت معروف نہیں ہے۔یا پھر عمرہ جعرانہ کا واقعہ ہے۔جیسا کہ دیگر روایات میں بھی ہے کہ بال کاٹنے کا یہ واقعہ عمرہ جعرانہ کا ہے۔ یہ فتح مکہ اور غزوہ حنین اور محاصرہ ء طائف کے بعد کا واقعہ ہے۔اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے تو آپ نے جعرانہ کے مقام پر غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا۔ اور پھر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ تشریف لائے۔ اور معاویہ نے آپ کے بال کاٹے ؛ تو اس وقت امیر معاویہ مسلمان ہو چکے تھے۔ یعنی آپ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آپ کے تجربہ اور امانت داری کی بنا پر کاتب وحی رکھ لیا۔ آپ کے اور آپ کے بھائی یزید بن ابو سفیان کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہو جیسے دوسرے بعض مشرکین آپ کو تکلیف دیا کرتے تھے۔ آپ کا بھائی یزید آپ سے بھی افضل تھا۔ بعض لوگ اسے بھی وہ یزید خیال کرتے ہیں جو آپ کا بیٹا تھا اور آپ کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ اوراسی کے زمانہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ پس وہ یزید بن معاویہ کو بھی صحابہ میں سے شمار کرتے ہیں ۔ یہ ایک کھلی ہوئی جہالت ہے۔ اس لیے کہ یزید بن معاویہ کی ولادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئی۔ جب کہ اس کا چچا یزید ایک نیک انسان تھا جس کا شمار نیک دل صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شام کا امیر مقرر کیا تھا۔ اوروہ آپ کا ہم رکاب رہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے بھائی امیر معاویہ کوشام کا امیر مقرر کیا گیا۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے اس کی حدود امارت بڑھا دی۔ اوراسے یوں ہی امیر باقی رکھا۔ حتی کہ جب فتنہ برپا ہوا اورپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین قتل ہوئے ؛ اور اہل عراق نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرلی؛ اور چھ ماہ تک خلیفہ رہنے کے بعد خلافت کی زمام امیر معاویہ کے سپرد کردی؛ اور صحیح حدیث میں وارد یہ عظیم بشارت نبوی پوری ہوئی؛ جس میں آپ نے فرمایا تھا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اورعنقریب اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[1] اس کے بعد امیر معاویہ بیس سال تک خلیفہ رہے؛ اور سن۶۰ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ جس چیز سے رافضی کا جھوٹ کھل کر واضح ہوتا ہے وہ یہ کہ اہل مکہ میں سے کسی ایک نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے میں اتنی دیر نہیں کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن نو ہجری میں فتح مکہ کے سوا سال بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج
Flag Counter