Maktaba Wahhabi

539 - 645
[جواب] : اس قول کا جھوٹ ہونا صاف طور پر ظاہر ہے۔یہ بات متفق علیہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس سال مشرف بہ اسلام ہوئے جس سال مکہ فتح ہوا تھا۔شیعہ مصنف ابن المطہرّ کا یہ قول پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب فرمائی تھی۔ ظاہر ہے کہ مولفۃ القلوب کو آپ نے جنگ حنین [ہوازن] کے مال غنیمت میں سے مال عطا کیا تھا۔اور معاویہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تألیف قلب کیلئے مال عطاء فرمایا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کے سرداروں کی تالیف کے لیے انہیں نوازا کرتے تھے ۔اگر معاویہ یمن بھاگ گئے ہوتے، جیسا کہ شیعہ مصنف نے لکھا ہے، تو آپ مؤلفۃ القلوب میں سے نہیں ہو سکتے ۔ اگرچہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ ماہ قبل ہی اسلام قبول کیا ہو۔ تو پھر انہیں حنین کی غنیمت میں سے بھی کچھ حصہ نہ ملا ہوتا۔ اور اگر آپ ایسے ہی ایمان لائے ہوتے ‘ توپھر تألیف قلب کی ضرورت نہ ہوتی۔‘‘ بعض حضرات کے نزدیک آپ اس سے پہلے اسلام لے آئے تھے۔ ٭ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’میں نے مروہ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘ بخاری اورمسلم میں اس کے الفاظ یوں ہیں : ’’کیا آپ نے نہیں جانتے ’میں نے مروہ پر تیر کی نوک سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘آپ نے ابن عباس سے یہ ارشاد فرمایا۔ تو انہوں نے جواب دیا : میرا خیال ہے کہ یہ بات تم پر ہی حجت ہے۔‘‘[1] یہ کہا گیا ہے کہ یہ حجۃ الوداع والے سال کا واقعہ ہے۔ لیکن یہ ان متواتر اور مشہور احادیث کے خلاف ہے ان سب احادیث میں اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ حجۃ الوداع والے سال قربانی کے دن احرام سے حلال ہوئے تھے۔ اور آپ نے صحابہ کرم کو حکم دیا تھا کہ جو کوئی قربانی کا جانور ساتھ نہیں لایا؛ وہ عمرہ سے فارغ ہو کر مکمل طور پر حلال ہو جائیں ؛ اور حج تمتع کریں ۔ قربانی ساتھ لانے والے اپنے احرام میں باقی رہیں حتی کہ قربانی کر دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی اور حضرت طلحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر آئے تھے؛ تو وہ حلال نہیں ہوئے۔ حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات قربانی نہیں لائی تھیں ؛ اس لیے وہ حلال ہوگئیں ۔ اس سلسلہ کی احادی صحاح ؛ سنن اور مسانید میں معروف ہیں ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹنا حجۃ الوداع والے سال نہیں تھا ؛ لیکن جن لوگوں کا خیال یہ ہو کہ قربانی لانے والے متمتع کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بال کاٹ دے؛ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ سے
Flag Counter