Maktaba Wahhabi

541 - 645
بناکر روانہ فرمایا۔ اور یہ اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی بھی مشرک حج نہ کرے۔اور کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ اس سال مشرکین کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے واپس کردیے گئے۔ اور انہیں چارماہ کی مہلت دی گئی ۔ یہ مدت سن دس ہجری میں پوری ہوگئی۔ یہ امان تمام مشرکین عرب کے لیے عام تھی۔ سن نو ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام عیسائیوں سے جنگ لڑنے کے لیے غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے۔اس موقع پر اسلام پورے عرب میں غالب ہوچکا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خواہ جتنے بھی گناہ ہوں ‘ وہ ان کے اسلام لانے سے ختم ہوچکے۔ تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر کسی معلو م شدہ گناہ کے آپ بھاگتے پھرتے ہوں ‘ یا پھر آپ کا خون رائیگاں قرار دیا جائے؟ مغازی اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معاویہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جن کا خون فتح مکہ والے سال رائیگاں قرار دیا گیا تھا۔ عروہ بن زبیر کی مغازی ؛ [ان کے علاوہ مغازی] الزہری ؛ موسی بن عقبہ ‘ ابن اسحق ‘ واقدی؛ سعید بن یحی اموی ؛ محمدبن عائذ؛ ابو اسحق الفزاری اور دوسرے لوگ ہیں ۔ اور ان کے علاوہ کتب تفسیر و حدیث تمام اس رافضی کے دعوی کے خلاف بول رہی ہیں ‘ ان تمام مصنفین نے ان لوگوں کے نام ذکر کیے ہیں جن کا خون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تھا؛ جیسا کہ: قیس بن صبابہ ؛ عبد اللہ بن اخطل ‘ ان دونوں کو قتل کردیا گیا ؛ ایسے ہی عبد اللہ بن ابی سرح کا خون بھی رائیگا ن قرار دیا تھا ؛ مگر اس نے بعد میں [اسلام قبول کرتے ہوئے ] بیعت کرلی ۔ جن لوگوں کا خون رائیگاں قرار دیا تھا وہ گنتی کے چند آدمی تھے ؛ جن کی تعداد دس کے قریب ہے۔ [1] ابو سفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے غزوہ بدر کے موقع پر مکہ مکرمہ آدمی بھیج کر مشرکین سے مدد طلب کی تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر اس نے اپنے پاس موجود اموال جمع کیے اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں خرچ کریں ۔ اور غزوہ احد کے موقع پر مشرکین کے لشکر کا سب سے بڑا قائد یہی تھا۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی کافروں کے لشکر کی قیادت اسی کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں بغیر کسی عہد و عقد کے اپنے ساتھ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter