Maktaba Wahhabi

429 - 645
اورامام تھے جیسا کہ امامیہ کا عقیدہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ : نہیں ‘ بلکہ آپ کی خلافت نص خفی سے ثابت ہے ؛ جیسا کہ زیدیہ میں سے جارودیہ کا عقیدہ ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں نص جلی یا خفی کا یہ دعویٰ شیعہ کے اس دعویٰ سے اقوی و اظہر ہے جو وہ خلافت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق نصوص کے بارے میں کرتے ہیں ، اسی لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں کثیر التعداد نصوص وارد ہوئی ہیں ۔ بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وارد شدہ نصوص یا تو جھوٹی ہیں یا ان سے یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ بنا بریں یہ مسلمہ صداقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے بعد صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف آپ ہی خلیفہ برحق تھے۔ خلیفہ مطلق وہ ہے جو آپ کی وفات کے بعد خلیفہ بنے یا آپ اپنی موت کے بعد اس کو خلیفہ مقرر کریں ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں وصف سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور میں موجود نہ تھے؛ اس بنا پر آپ خلیفہ برحق تھے۔ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کرنے کا تعلق ہے تو آپ بات میں منفرد نہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ میں نکلتے تو مدینہ منورہ میں اپنے صحابہ میں سے کسی ایک کو اس منصب پر فائز کرتے۔ یہ واقعات ملاحظہ ہوں : ۱۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نضیر سے لڑنے کے لیے مدینہ سے باہر نکلے تو عبد اﷲ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا۔ ۲۔ غزوۂ ذات الرقاع اورغزوہ غطفان کے لیے جاتے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حاکمِ مدینہ قرار پائے۔[1] ۳۔ غزوۂ بدر ؛ غزوہ بنی قینقاع اور غزوہ سویق کیلئے تشریف لے گئے تو ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا ۔[2] ۳۔ غزوہ بدر الموعد میں آپ نے ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر عامل مقرر فرمایا۔ ۵۔ غزوہ المریسیع میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا تھا۔ ۶۔ غزوہ ابواء میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا ۔ ۷۔ غزوہ بواط میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا ۔ ۸۔ غزوہ عشیرہ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کوعامل مقرر فرمایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں پر عامل بنایا وہ ان لوگوں سے اکثر و افضل نہ تھے جن پر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں کو عامل یا خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔بلکہ تقریباً ہر غزوہ کے موقع پر مدینہ نبویہ میں کچھ نہ کچھ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم موجود ہوا کرتے تھے۔ وہ ان لوگوں سے بہت افضل تھے جو کہ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے ۔ غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔اورنہ ہی اس غزوہ میں کوئی پیچھے رہا تھا سوائے منافق یا معذور کے اورتین افراد وہ تھے جن کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے۔پیچھے رہ جانے والوں کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں نائب بنا کر چھوڑا تو آپ روتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے
Flag Counter