Maktaba Wahhabi

428 - 645
پہلے معنی کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیوں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ان کے قائم مقام ہوئے اور آپ دوسروں کی نسبت اس منصب کے لیے موزوں تر تھے۔ لہٰذا آپ خلیفہ قرار پائے اور دوسرا کوئی شخص یہ مقام حاصل نہ کر سکا۔ شیعہ اور دیگر فرقوں میں سے کوئی بھی اس مسلمہ صداقت کا منکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے تھے آپ نماز پڑھاتے۔[1] شرعی حدود قائم کرتے اور صلح کی بنا پر حاصل کردہ مال مسلمانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں آپ کفار سے جہاد کرتے،عمّال و امراء مقرر کرتے اور دیگر سیاسی امور انجام دیا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ امور انجام دیا کرتے تھے۔ لہٰذا بلا نزاع آپ خلیفہ رسول تھے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔[2] اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا؛ اور آپ ہی اس خلافت کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ جب کہ [پرانے ]شیعہ کہتے تھے: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دارتھے ۔ لیکن حضرت ابو بکر [جب خلیفہ بن ہی گئے تو آپ ] کی خلافت درست ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جائز نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنتے ؛ مگر جب آپ بالفعل خلیفہ بن گئے تو اب اس میں تنازع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور اب آپ اس نام کے مستحق ہیں ۔ اس لیے کہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو دوسرے کا قائم مقام بنے ۔ دوسرے معنی کی بیناد پر : خلیفہ وہ ہے جسے دوسرا اپنا قائم مقام مقرر کرے ۔جیسا کہ بعض اہل سنت اور بعض شیعہ اس دوسرے معنی کواختیار کرتے ہیں ۔اہل سنت و الجماعت میں سے جن لوگوں نے یہ معنی اختیار کیا ہے ‘ وہ اس معنی کی بناء پر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نص جلی یا خفی کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔جیسا کہ شیعہ جوکہ نص سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ‘ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ نص جلی کی روشنی میں خلیفہ
Flag Counter