Maktaba Wahhabi

430 - 645
چل پڑے ؛ اور آپ کی خدمت میں یوں عرض گزار ہوئے : کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟یہ بھی کہاگیا ہے کہ بعض منافقین نے آپ پر طعنہ زنی کی تھی ؛ اور یہ کہا تھا کہ : آپ کو اس لیے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بغض رکھتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دوسرے لوگوں کو بھی مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا؛ اوروہ لوگ بھی تعداد میں زیادہ ہوا کرتے تھے ۔ اور ان لوگوں سے افضل ہوا کرتے تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیاتھا۔تو ثابت ہوا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجود گی میں ایک مخصوص گروہ پر کسی کو نائب مقرر کرنا تھا۔ظاہر ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپکی امت پر استخلاف مطلق نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اصحاب میں سے کسی کو بھی خلیفہء رسول نہیں کہا گیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کویہ خطاب دیاجائے تو دوسرے جو صحابہ وقتاً فوقتاً مدینہ میں نائب بنتے رہے ہیں پھروہ بھی اس خطاب کے مستحق ہیں ۔توپھر یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہ ہوئی۔ نیز یہ بات بھی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جو انسان کسی رسول کے مرنے کے بعدخلیفہ بنتا ہے وہ لوگوں میں سے افضل ترین انسان ہوتا ہے ۔ جب کہ دوسرا وہ انسان ہے جو دشمن سے جہاد کی مہم کے دوران خلیفہ بنتا ہے ‘ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام لوگوں سے افضل ہو۔ بلکہ عادتاً دیکھا گیا ہے کہ دوران جہاد جو انسان افضل ہوتا ہے ؛اسے جہادی ضرورت کے پیش نظر ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ بخلاف اس انسان کے جسے عورتوں اور بچوں پر نائب مقرر کیا جائے۔ اس لیے کہ جہاد میں کام آنے والا انسان اس مہم میں ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اس کا مقام بچوں پر نائب بن کر پیچھے رہنے والے کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نائب بن کر پیچھے رہنے والے کا فائدہ اس انسان کی طرح نہیں ہے جو جہاد میں ساتھ شریک ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ صرف اصل استخلاف میں دی تھی۔[1]کمال
Flag Counter