Maktaba Wahhabi

283 - 645
اکمل تھی، جب آیت قرآنی: ﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ ﴾ (التوبہ:۱۰۸) ’’البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ نازل ہوئی تومسجد کے لفظ سے مذکورہ دونوں مساجد کو مراد لیا جانے لگا،بلکہ مسجد نبوی اس میں بدرجہ اولی شامل ہے۔پھر علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا آپ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں ؟امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں منقول ہیں ۔ بروایت صحیح تر منقول ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّاتِہٖ )) [1] دوسرے مقام پر یہ درود تفصیل کے ساتھ ہے ۔ جب کہ ان کے غلام اور باندیاں وغیرہ بلا اختلاف اہل بیت میں سے نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صدقہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے مباح تھا۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ کا شمار بھی آپ کے موالین میں سے ہوتا ہے۔اسی لیے انہیں صدقہ لینے سے منع کیا گیا؛ اس لیے کہ کسی قوم کے موالی انہی میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ ان پر صدقہ حرام ہونے کا سبب بھی ان کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق پاک کرناہے۔ اس لیے کہ صدقہ لوگوں کا میل کچیل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے لیے وجوب محبت کی تفسیر میں بھی غلطی ہوئی ہے۔صحیح بخاری میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی بابت پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳] ’’ کہہ دیجئے!کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘ تو میں نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا تعلق رکھنے والوں سے محبت کرو ۔‘‘ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے : ’’ تم نے بہت جلدی کی۔ قریش کی کوئی بھی شاخ ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلقِ قرابت داری نہ ہو۔[2]
Flag Counter