Maktaba Wahhabi

284 - 645
بنا بریں اﷲتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ (اے نبی) آپ فرمائیں کہ میں اس کے سوا تم سے کچھ اجر طلب نہیں کرتا کہ ان قرابت دارانہ تعلقات کی بنا پر جو میرے اور تمہارے درمیان پائے جاتے ہیں تو مجھ سے الفت و محبت کاسلوک روا رکھو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اہل بیت کے ایک بڑے فرد اور تفسیر قرآن کے علماء میں سے ہیں ۔یہ تفسیر آپ سے ثابت ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں ’’ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذِی الْقُرْبٰی ‘‘کے الفاظ نہیں فرمائے بلکہ یوں فرمایا ’’ فِی الْقُرْبیٰ ‘‘حالانکہ جہاں اقارب مراد لینا مقصود ہوتا ہے وہاںلِذِوی الْقُرْبیٰ ‘‘کی تصریح ہوتی ہے،کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ جب اقارب مراد تھے؛ تو یہی الفاظ استعمال کئے ؛ جیسے اس آیت کریمہ میں ہے : ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ﴾ (الانفال:۳۱) ’’اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت ملے؛ بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور قریبی رشتہ داروں کے لیے ۔‘‘ [یہاں صراحۃً یہ الفاظ موجود ہیں ۔] اگریہاں بھی قرابت داروں کی محبت مقصود ہوتی تو ﴿ وَلِذِی الْقُرْبیٰ﴾ : کے الفاظ استعمال کیے جاتے ۔یوں تو بولا ہی نہیں جا سکتا کہ: ﴿ الْمَوَدَّۃَ فِی ذوی الْقُرْبٰی﴾۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾سے مرادا قرابت داروں کی محبت ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل پر کسی قسم کے اجر و بدلہ کے طلب گار تھے ہی نہیں ۔بیشک آپ کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ اور مسلمانوں پر لازم ہوتا ہے کہ آپ سے اور آپ کے اہل بیت سے موالات اوردوستی رکھیں ؛ لیکن اس کا ثبوت اس آیت سے نہیں دوسری آیات سے ملتا ہے ۔اہل بیت کے ساتھ ہماری دوستی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر میں داخل نہیں اس لیے آپ کہ اجر سے بے نیاز تھے اور صرف اﷲتعالیٰ سے اجر طلب کیا کرتے تھے۔ نیز یہ آیت مکی ہے ؛ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہی نہیں ہوئی تھی؛ اورنہ ہی اس وقت میں ان کی کوئی کسی قسم کی اولاد تھی۔ باقی رہا آیت مباہلہ کا معاملہ ۔ صحیح بخاری میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پکڑ لیے تاکہ ان سے مباہلہ کریں ۔[1] انہیں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت آپ کے زیادہ قریبی تھے۔اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد بھی نہ تھی جس کو آپ ساتھ لیکر مباہلہ کے لیے چلتے ۔لیکن آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے : میرا یہ بیٹا سردار ہوگا۔‘‘پس یہ دونوں اور آپ کے بیٹے اور عورتیں مباہلہ کے لیے چلے۔ اس لیے کہ اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیٹیاں وفات پاچکی تھیں ۔ مباہلہ کا قصہ اس وقت کا ہے جب نجران کا وفد حاضر خدمت ہوا تھا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔یہ فتح مکہ کے بعد سنہ ۹
Flag Counter