Maktaba Wahhabi

135 - 406
ابن سعد رحمہ اللہ نے الطبقات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے جرف میں پڑاؤ ڈالا۔ مہاجرین و انصار رضي الله عنهم کے سرکردہ لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچا جس نے اس لشکر میں شرکت نہ کی ہو۔‘‘[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانگی کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ آپ انھیں لے کر نکلے اور جرف میں پڑاؤ ڈالا تاکہ وہاں سے فوری روانگی کے لیے مستعد رہیں لیکن ایسے ہوا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بہت بڑھ گئی۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس عیادت کے لیے تشریف لائے اور عرض گزار ہوئے: اے اللہ رسول! آپ بہت کمزور ہو چکے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے آپ کی صحت یابی کی امید کرتا ہوں ۔ آپ مجھے یہاں پر اس وقت تک رکنے کی اجازت مرحمت فرمائیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفایاب کر دیں ۔ اگر میں اس حالت میں نکلا کہ آپ کی بیماری کا یہ حال ہے تو میرا دل آپ کی وجہ سے پریشان رہے گا اور مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں لوگوں سے آپ کی خبر دریافت کرتا رہوں ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔‘‘ [2] حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس تاخیر کی اجازت طلب کی تھی تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت کے متعلق مطمئن ہو جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کی اجازت دے دی تھی اور اگر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ روانگی کا ارادہ فرماتے تو آپ کی امارت میں موجود لوگوں میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہ رہتا۔ یہ اس سارے واقعہ کی حقیقی صورت حال ہے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا تاخیر کرنا بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت ملنے کے بعد کا معاملہ ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کی تیاری کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان کل سولہ دن کا فاصلہ ہے اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ لشکر کی تیاری کے لیے یہ مدت کوئی زیادہ لمبی نہیں ہے۔ اس سے ان لوگوں کے دعویٰ کا بطلان ثابت ہوتا ہے جو حضرات صحابہ کرام پر جہاد سے گراں باری یا سستی کا الزام لگاتے ہیں ۔ بلکہ یہ الٹا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتباع حکم نبوت میں جلدی کی اور اتنا بڑا لشکر جس کی تعداد تین ہزار تھی صرف چند دن میں تیار ہو گیا۔‘‘[3] صرف تین دن کے وقت میں ہر قسم کی جنگی تیاری اور ساز و سامان مکمل کر لیا حالانکہ اس وقت یہ لوگ فقر و فاقہ کے ایام سے گزر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے جہاد اور دین اسلام پر آزمائش میں صبر کا بہترین بدلہ دے جو کہ وہ محسنین کو عطا کرتا ہے، آمین۔
Flag Counter