Maktaba Wahhabi

359 - 406
حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حقیقت میں بغاوت جہنم کی طرف دعوت ہے، اگرچہ ایسا کرنے والے کو اس کا شعور نہ بھی ہو۔ جیسا کہ آپ عصبیت کی بنا پر قتال کو جائز سمجھنے والے اور عصبیت کی حمایت کرنے والے سے کہتے ہیں کہ وہ اس فتوی کی بنیاد پر جہنم کی طرف بلارہا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات وہ متاول بھی ہو سکتا ہے اور اس کا خیال ہوسکتا ہے کہ وہ حق پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت علماء یہ نہیں کہتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم تھے اور ان سے کبھی کوئی غلطی ہوئی ہی نہیں ۔ بلکہ وہ کہتے ہیں :’’ ان سے کسی خطا پرتا ویل کی وجہ سے گناہ کا صدور ہو سکتا ہے اور بغیر تاویل کے بھی۔ اس لیے کہ وہ بھی بشر ہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے، ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں جہاد فی سبیل اللہ کرنا، صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت انھیں تمام امت پر فضیلت دیتے ہوئے مقدم کرتی ہے، یہ ایسی سبقت ہے جسے کوئی دوسرا نہیں پاسکتا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ: ’’ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (مسلم) پس ان حضرات پر طعنہ زنی کرنا، جاہل منافق یا مریض القلب کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ زیاد بن ابیہ کو اپنا بھائی کہنا: شبہ: ....زیاد ابن ابیہ کو اپنا بھائی کہنا: جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ لڑکا چار پائی والے کا ہے، زنا کا رکے لیے پتھر ہیں ۔‘‘ جواب:.... یہاں پر زیاد سے مراد زیاد بن شمیہ ہے۔ یہ اس کی ماں ہے جو کہ حارث بن کلدہ کی باندی تھی۔ اس کے آقانے اس کی شادی عبید سے کر دی تھی اور اس کے گھر میں اس نے زیاد کو جنم دیا، وہ اس وقت طائف میں تھے۔ یہ اہل طائف کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کی بات ہے۔[1] ٭زیاد بن ابیہ کے نسب کے مسئلہ کا شمار تاریخ اسلامی کے مشکل مسائل میں ہوتا ہے، کیونکہ اس سے کئی ایک سوالات جنم لیتے ہیں ، جن کا جواب ملنا بڑا مشکل ہے، مثلاً: اس معاملہ کو عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیوں نہیں اچھا لا گیا جیساکہ اس جیسے دوسرے معاملات فتح مکہ کے موقع پر سامنے لائے گئے۔ جیسا کہ زمعہ بن قیس کی لونڈی کے بیٹے کا معاملہ، جس کا دعوی عتبہ بن ابی وقاص نے کیا تھا۔[2]
Flag Counter