Maktaba Wahhabi

271 - 406
حد تک بلوغت شرط ہے۔کیاآپ دیکھتے نہیں کہ انبیاء کرامRکو چالیس سال کی عمرکے بعدمبعوث کیاجاتا تھا۔ سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے، یہ نادر مثال ہے اور نادر معدوم کی طرح ہوتا ہے جس کا کوئی حکم ہی نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ذمہ داری نہ ملنا: شبہ:.... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی کوئی ایسی ذمہ داری نہیں سونپی جس کا تعلق دین سے ہو۔‘‘ پس اس سے ظاہر ہوا کہ آپ امامت کے اہل نہ تھے۔ ٭ یہ ایک ایسا کھلا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے کہ احوال سیرت اور تاریخی واقعات سب اس کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ ۱۔ غزوۂ احد کے بعد ابوسفیان سے جنگ کے لیے آپ کو امیر بنایا جانا ثابت ہے۔ ۲۔ غزوہ ٔبنو فزارہ میں بھی آپ امیر تھے۔ جیسا کہ امام حاکم نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ۳۔پھر سنہ ۹ ہجری میں آپ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا گیا تاکہ لوگوں کو حلال و حرام کے احکام سکھائیں ۔ ۴۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل نمازیں پڑھانے کے لیے امام مقرر فرمایا۔ آپ کی یہ امارت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اور موجودگی میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ان لوگوں کے ساتھ موجود تھے۔ آپ کی یہی منقبت کافی ہے اس کے علاوہ دیگر واقعات بھی ہیں جن کا شمار کرنا طوالت اختیار کر جائے گا۔ اگر اس دعویٰ کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی آپ کو امیر نہ بنانے سے لیاقت کا نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ بلکہ آپ کے وزیر و مشیر ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہو گا جیسا کہ عام عادت کے طور پر ہوتا ہے۔ ٭ امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رحمہ اللہ سے روایت کیاہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:’’میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے دور دور تک بھیجوں جیسا کہ حضرت ابن مریم نے اپنے حواریوں کو بھیجا تھا، تو حاضرین میں سے کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان موجود لوگوں کی طرح کے افراد؟ حاضرین میں حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں ان دونوں حضرات سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ دین میں انھیں ایسے ہی اہمیت حاصل ہے جیسے سماعت اور بصارت کی اہمیت۔‘‘[1] ایک دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے چار وزیر عطا کیے ہیں ۔ دو آسمان والوں میں سے اور دو
Flag Counter