Maktaba Wahhabi

130 - 406
یا نہیں ۔ یہاں پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہنے والے کی مراد پہلی قسم ہو۔ یعنی آپ کی آواز کی کمزوری کی وجہ سے سمجھ نہیں سکا۔ اس کی تائید اسی حدیث میں وارد بعد والے جملہ سے ہوتی ہے جس میں کہا ہے: ’’استفہموہ‘‘ آپ کی بات سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘[1] تیسری وجہ:.... ممکن ہے کہ کہنے والے سے یہ الفاظ خوف اور حیرت کی وجہ سے صادر ہوئے ہوں جو کہ اس بہت ہی تکلیف دہ اور خطرناک صورت حال کی وجہ سے ممکن ہے۔ کیونکہ یہ تو بہت بڑی مصیبت تھی۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے وقت اس قسم کی مصیبت کا شکار ہو گئے تھے۔[2] چوتھی وجہ:.... یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کبار صحابہ کی موجودگی میں صادر ہوئے، مگر کسی ایک نے ان کے قائل پر تنقید نہیں کی اورنہ ہی اسے گنہگار کہا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جملہ کہنے والا ہر حال میں معذور ہے۔ ایک مردود دعویٰ یہ دعویٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے یہ کہہ کر اختلاف کیا تھا کہ ’’تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے اور کتاب اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تحریر لکھوانے کا ارادہ تھا، اس میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی۔ پہلی بات:.... حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ہم خیال لوگ یہ سوچتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نوشتہ تحریر کرنے کا حکم واجب نہیں ہے، جس کی تعمیل ضروری ہو۔ اس میں صرف زیادہ مناسب بات کی طرف راہنمائی ہے۔‘‘[3] اگر یہ حکم واجب التعمیل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے نہ چھوڑتے۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی درستگی اور صحت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے دعوت و تبلیغ ترک نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقات وحی میں شمار کیا جاتا ہے۔‘‘[4] دوسری بات:.... حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ:’’ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب کافی ہے‘‘ یہ ان
Flag Counter