Maktaba Wahhabi

312 - 406
اگر صبح کی اذان ہو تو یوں کہو: الصلاۃ خیر مِن النوم ؛ الصلاۃ خیر مِن النوم پھر اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر ؛ لا اِلہ اِلا اللّٰہ کہو۔‘‘[1] حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فجر کی پہلی اذان دیا کرتا تھا حی علی الصلوٰۃ؛ حی علی الفلاحِ کے بعد کہتا: الصلاۃ خیر مِن النوم ؛ الصلاۃ خیر مِن النوم پھر اللّٰہ اکبر اللّٰه اکبر لا اِلہ اِلا اللّٰہ۔‘‘[2] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ: ’’الصلاۃ خیرمن النوم‘‘ کا جملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایجاد کردہ بدعت نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بددعا: کہتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جاگیر فدک کے بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو وعظ کیا، تو انہوں نے اس بارے میں ایک تحریر لکھ کر دی، جس میں جاگیرفدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو واپس کی گئی تھی۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وہاں سے نکلیں تو ان کی ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوگئی، انہوں نے یہ تحریر لے کر جلادی۔ تو آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بددعا دی، جس کے نتیجہ میں ابو لؤلؤنے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا۔‘‘ جواب:.... یہ ایسا جھوٹ ہے جس میں کسی عالم کو ذرا بھر بھی شک نہیں ۔ یہ قصہ حدیث کا علم رکھنے والے کسی بھی عالم نے روایت نہیں کیا، اور نہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی جاگیر فدک انھیں لکھ کر نہیں دی۔ نہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ، نہ کسی دوسرے کو اور نہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بددعا کی اور جو کچھ ابو لؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا، یہ آپ کے حق میں کرامت تھا اور یہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے جو ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا اور جو کچھ قاتلین حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا، بے شک ابو لؤلؤ کافر تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایسے ہی قتل کیا جیسے کفار اہل ایمان کو قتل کرتے ہیں ۔ یہ شہادت اس کی شہادت سے زیادہ بڑھ کر ہے جس میں مسلمان کسی مسلمان کو قتل کر دیں ۔ کافروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کا مقام ومرتبہ، مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ ابو لؤلؤ کے ہاتھوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے کا واقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موت کے بہت بعد کا ہے۔ اس میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مدت کا فاصلہ ہے سوائے چھ ماہ کے تو پھر
Flag Counter