Maktaba Wahhabi

332 - 406
’’اے کعب! اونٹ کو چھوڑ دو، اور قرآن لے کر آگے بڑھو، اور لوگوں کو قرآن کی طرف بلاؤ، اور آپ نے قرآن کا نسخہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو تھما دیا۔‘‘ دوسرا لشکر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے تھا۔ سبائی ان کے آگے آگے تھے۔ انہیں خوف محسوس ہو رہاتھا کہ کہیں ان کے مابین صلح نہ ہو جائے ۔جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ مصحف لے کر آگے بڑھے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے تھے، وہ اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کررہے تھے، مگر وہ آگے بڑھنے کے علاوہ کوئی بات ماننے پر تیار نہ تھے۔ جب حضرت کعب نے انہیں آوازدی، تو انہوں نے ایک تیر مار کر ان کا کام تمام کر دیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہودج پر تیر برسائے۔ آپ پکارنے لگیں :’’اے میرے بیٹو! بقیہ بقیہ۔ آپ کی آواز بلند ہو رہی تھی، اللہ اللہ، اللہ کو یاد کرو، اور حساب کے دن کو یاد کرو۔ مگر وہ لوگ برابر آگے بڑھتے رہے۔ جب انہوں نے پیش قدمی نہ روکی، تو آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ قاتلین عثمان پر لعنت شروع کی، فرمایا: اے لوگو! قاتلین عثمان اور ان کے پیرو کاروں پر لعنت کرو اور خود بھی بد دعا کرنے لگیں اہل بصرہ کی دعا سے ایک گونج پھیل گئی۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ آواز سنی تو دریافت کیاکہ یہ کیسی آواز ہے؟ کہنے لگے: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان پر بد دعا کر رہی ہیں ، اور لوگ بھی ان کے ساتھ بد دعا کررہے ہیں ۔ تو آپ بھی بددعا کرنے لگے:’’ اے اللہ! قاتلین عثمان اور ان کے اعوان وانصار پر لعنت فرما۔‘‘ [1] یہ باتیں ابن اثیر نے بھی اپنی تاریخ میں لکھی ہیں ، ان سے ان صحیح روایات کو تقویت ملتی ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ وزبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ نہیں کرتا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اس سفر پر ندامت تھی، آپ فرمایا کرتی تھیں : مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں ایک ہری ٹہنی ہوتی مگر اس سفر پر نہ نکلتی اور آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں : مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں حارث بن ہشام جیسے دس کو گم پاتی مگر ابن زبیر کے ساتھ اس سفر پر نہ نکلتی۔اگر آپ کا ارادہ جنگ وقتال کا ہوتا تو آپ کو یہ ندامت نہ ہوتی۔‘‘ [2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ: شبہ:....آپ کا یہ فرماناکہ ’’فتنہ یہاں ہوگا، فتنہ یہاں ہوگا، فتنہ یہاں ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔‘‘ جواب:.... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مشرق کی سمت تھی۔ اگر آپ کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر ہوتا
Flag Counter