Maktaba Wahhabi

294 - 406
کرتے تھے۔ آپ اپنے اہل خانہ کو اور اپنی ذات کو اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی نسبت بہت کم حصہ دیاکرتے تھے۔ آپ نے اپنی بیٹی اور بیٹے کو ان ہی کے امثال دوسرے لوگوں کی نسبت حصہ کم دیا تھا تفضیل کا طعنہ اس پر مؤثر ہو سکتا ہے جو خواہش نفس کی وجہ سے ایسے کرتا ہو اور جس انسان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا حصول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری ہو۔ اس پر یہ طعنہ زنی مناسب نہیں ۔ جو کوئی ان لوگوں کو فضیلت دیتا ہو جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی ہے، اور ان کی تعظیم کرتا ہو جن کی تعظیم اللہ اور اس کے رسول نے کی ہے تو ایسا انسان مذمت کے بجائے مدح وثناء کا مستحق ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اتنا کچھ دیا کرتے تھے جو ان کے امثال کو نہیں ملتا تھا۔ یہ سلوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت داروں کے ساتھ تھا۔ اگر آپ مساوات کرتے تو پھر اتنا کچھ صرف چند ایک ہی لوگوں کو مل سکتا تھا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عطیات میں لوگوں کے طبقات بنا رکھے تھے۔ پہلا طبقہ بدری مہاجرین، دوسرا طبقہ بدری انصار، تیسرا طبقہ وہ مہاجرین جو بدر میں شرکت نہ کر سکے۔ چوتھا طبقہ وہ انصار جو بدر میں شریک نہ تھے پھر وہ لوگ جو حدیبیہ اور فتح مکہ میں شریک ہوئے، پھر وہ لوگ جو قادسیہ اور یر موک میں شریک ہوئے۔ پھر کچھ لوگوں کے خاص وظائف مقرر تھے، ان میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔ لیکن آپ عربی اور اس کے غلام میں مساوات برتتے تھے۔ بخلاف اس طعنہ گرکے۔ آپ اہل بدر عرب اور غلاموں کو برابر دیا کرتے تھے اور آپ نے لشکروں کے امراء کو بھی یہ تحریر بھیجی تھی کہ جن غلاموں کو تم نے آزاد کر دیا ہے، اور وہ مسلمان ہوگئے ہیں ، انہیں ان کے سابقہ آقاؤوں کے ساتھ ملاؤ۔ ان کا بھی وہی حق ہے جو ان کے آقاؤوں کا ہے۔ ان پر وہی فرض ہے جو ان پر ہے۔ اگر وہ چاہیں کہ وہ علیحدہ سے ایک قبیلہ بن جائیں ۔ تو انہیں اپنی عطاء اور حسن سلوک میں اسوہ اور نمونہ بناؤ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احکام شریعت سے جہالت: ایک دشنام طراز کہتا ہے:.... ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس علم کثیر کے بارے میں سنتے آئے ہیں جس کی کوئی حدہی نہیں ۔ حتی کہ کہا گیا ہے کہ آپ تمام صحابہ سے بڑے عالم تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آیات میں آپ کی موافقت کی ہے اور آپ کی آراء کی تائید میں قرآن کی کئی آیات نازل فرمائی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لیکن صحیح تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن نازل ہونے کے بعد بھی اس کی موافقت نہیں کی۔ جب ایک
Flag Counter