Maktaba Wahhabi

344 - 406
دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق شبہات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما سے متعلق شبہات سیّدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی جھوٹی گواہی کا دعویٰ: معترض کہتا ہے: جب عائشہ رضی اللہ عنہا کا گزر حواب کے چشموں پر ہوا اور وہاں کے کتے اس پر بھونکے، تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحذیر یاد آگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کیا تھا کہ اونٹ والی نہ بن جانا۔ پس عائشہ رضی اللہ عنہا رونے لگی اور کہنے لگی: مجھے واپس کرو مجھے واپس کردو۔ لیکن طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما پچاس آدمی لے کر آئے، اور ان کے لیے انعام مقرر کیا، انہوں نے قسمیں اٹھائیں کہ یہ حواب کے چشمے نہیں ہیں پس آپ نے اپنا سفر جاری رکھا، حتیٰ کہ بصرہ پہنچ گئیں ، مؤرخین کہتے ہیں : اسلام میں یہ پہلی جھوٹی گواہی ہے، پھریہ خبر طبری، ابن اثیر اور مدائنی کی طرف منسوب کی ہے اور ان مؤرخین کی طرف اس کی نسبت کی ہے جنہوں نے سن ۳۶ھ کے واقعات علم بند کئے ہیں ۔ جواب: ....اس روایت کا طبری اور ابن اثیر کی کتاب میں (ان الفاظ میں ) وجود تک نہیں ۔ ہاں زہری نے یہ روایت اس طرح نقل کی ہے: ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ جب طلحہ اور زبیر حضرت علی کے ٹھکانے بمقام ذی قار تک پہنچے تو وہاں سے بصرہ کی طرف چلے گئے اور منکد کے پاس پڑا ؤڈالا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی، تو پوچھا: یہ کون سی جگہ ہے؟ (کون سے پانی ہیں )؟ تو کہنے لگے: حواب! آپ نے فرمایا: ﴿ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴾ میں ہی وہی ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ اپنی اوزاج مطہرات سے فرمارہے تھے: ’’ہائے افسوس! تم میں سے کون ہوگی جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے۔‘‘ پس آپ نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، ان کا خیال ہے (یعنی راوی کا) کہ آپ نے کہا: جس نے یہ کہا: یہ حواب کے پانی ہیں ، اس نے جھوٹ بولا اور آپ برابر سمجھاتے رہے، حتیٰ کہ آپ رضی اللہ عنہا ان کے ساتھ چلی گئیں ۔[1]
Flag Counter