Maktaba Wahhabi

138 - 406
آخری بات حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے سریہ والے قصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ الفاظ منسوب کیے گئے ہیں : ’’لشکر اسامہ سے پیچھے رہ جانے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘ یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑے گئے ہیں ۔ ۵.... صلح حدیبیہ اجمالی واقعہ: ٭چھ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے نکلے لیکن قریش نے مطالبہ کیا کہ وہ اس بار واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لیے آئیں تو تین دن کے لیے مکہ ان کے کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سخت شروط عائد کیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مان لیا۔ لیکن بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ بہت سخت محسوس ہوا اور انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔ ان اعتراض کرنے والوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے سوال کیا: کیا آپ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں ، ضرور ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ضرور ایسے ہی ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھائیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کی نافرمانی نہیں کروں گا، وہ میرا مددگار ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ یہ نہیں فرمایا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور کعبہ کا طواف کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں ، ضرور لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ یہ اسی سال ہو گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم بیت اللہ جاؤ گے اور وہاں کا طواف کرو گے۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمایا: ’’ اٹھو اور قربانی کرو، اور پھر اپنے سر منڈوا دو ۔‘‘
Flag Counter