Maktaba Wahhabi

325 - 406
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور اقرباء پروری: ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل خانہ اور قرابت داروں کو بہت زیادہ مال دیا اور بیت المال کے مال کو کثرت کے ساتھ نامناسب مقامات پر خرچ کرتے تھے۔ جو کہ آپ کے فضول خرچ ہونے کی دلیل ہے۔ آپ نے حکم کو ایک لاکھ درہم دیے اور افریقہ کا خمس مروان کو دیا۔ (یعنی خمس کا خمس نہ کہ کامل خمس) اور خالدبن سعید جب یہ مال لے کر مدینہ آیا، تو اسے تین لاکھ درہم دئیے۔ اس کے علاوہ بھی، ان کی فضول خرچی، اور بے جا اسراف کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔ جس کی یہ حالت ہو تو وہ امامت کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب:.... اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ واقعی اسی طرح خرچ کرتے تھے، تو یہ خرچ ان کے ذاتی مال سے تھا، بیت المال سے نہیں ۔ آپ خلیفہ بننے سے قبل بھی بڑے مالدار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ کتب سیرت کا مطالعہ کرنے والا انسان ضرور اس امر کا اعتراف کرے گا۔ آپ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے۔ او رمہاجرین وانصار کی ضیافت کرتے تھے اور ہر روز انہیں کھانا کھلاتے تھے۔ حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے منادی کرنے والے کو دیکھا، وہ اعلان کر رہا تھا، اے لوگو! کل اپنے عطیات لینے کے لیے پہنچ جانا۔ پھر اگلے دن لوگ پہنچ جاتے اور وافر مقدار میں حصہ لیتے۔ پھر منا دی ہوتی۔ اے لوگو! کل اپنا رزق (غلہ) لینے کے لیے پہنچ جانا، تو لوگ اگلے دن پہنچ جاتے، اور اپنی ضرورت کا سارا سامان لے لیتے، حتیٰ کہ اللہ کی قسم میں نے اپنے، ان دونوں کا نوں سے یہ منادی سنی! لوگو: کل اپنے کپڑے لینے کے لیے پہنچ جانا۔ لوگ جاتے اور کپڑے اور زیور حاصل کر لیتے۔‘‘ [1] تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرنے والا انسان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ سے واقف ہے اور کسی ایک سے بھی یہ نقل نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا موجب طعن ہے۔ جو بات عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ آپ نے خمس کا پانچواں حصہ اس کے جہاد فی سبیل اللہ کی قدر دانی میں اس کو دیا تھا اور پھر وہ بھی اس نے واپس کر دیا۔ بیت المال کی اراضی کی اقارب میں تقسیم: بیت المال کی اراضی کی اقارب میں تقسیم اور مسلمانوں کے حقوق کی تلفی:
Flag Counter