Maktaba Wahhabi

186 - 406
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے متعلق شبہات آیت غار معترض یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ [ التوبۃ: ۴۰] ’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو گے تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی ہے، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کر دی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان پر دلالت نہیں کرتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ساتھ (صحبت) کافر کا بھی ہو سکتا ہے اور مومن کا بھی۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا﴾ [ الکہف: ۳۷] ’’اس کے ساتھی نے، جب کہ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، اس سے کہا: کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر تجھے ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنا دیا۔‘‘ علمائے کرام کا ردّ ٭یہ تو معلوم شدہ ہے کہ ’’صاحب‘‘ کا لفظ لغت میں دوسرے کا ساتھ دینے والے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ رفیق سفر، بیوی وغیرہ محض اس لفظ میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کہ یہ دوست ہے یا دشمن، یا پھر
Flag Counter