Maktaba Wahhabi

193 - 406
٭اور علامہ طبرسی نے کہا ہے: ’’﴿ ثَانِيَ اثْنَيْنِ﴾ یعنی دو میں سے ایک۔ جیسا کہ کہا گیا ہے: ﴿ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ﴾[المائدۃ: ۷۳] اور یہ دو حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘[1] تمام امامیہ علماء نے اس آیت کی تفسیر میں ایسے ہی کہا ہے۔[2] مسئلہ فدک فدک سرزمین حجاز میں ایک گاؤں ہے جہاں پر یہودی رہتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے فارغ ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے فدک کی زمینوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ یہ زمینیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت قرار پائیں کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوئی تھیں ۔ اراضی فدک کا معاملہ دو امور سے خالی نہیں ۔ یا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو میراث میں ملے گی۔ یا پھر یہ وہ ہبہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا۔ جہاں تک وراثت کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت بخاری و مسلم کی روایات میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے والد کی میراث طلب کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں ، وہ فدک اور خیبر کے حصہ کا مطالبہ کر رہی تھیں ۔ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ہم وراثت نہیں چھوڑتے، جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘[3] اور مسند احمد کی روایت میں ہے:’’ بے شک ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے۔‘‘[4] یہ حدیث روایت کرنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منفرد نہیں ہیں ۔ بلکہ امہات المومنین، حضرت علی، حضرت عباس، حضرت عثمان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم نے بھی یہ روایت نقل کی ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل میں کچھ اور خیال تھا، اس لیے انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا:
Flag Counter