Maktaba Wahhabi

224 - 406
علمائے کرام کا اس پر ردّ اگر ہم بطور مناظرہ تسلیم بھی کر لیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کچھ کہا بھی ہو، تو ان کا ایسا کہنا ان کی ایمانی قوت اور اللہ تعالیٰ کے خوف پر دلالت کرتا ہے۔ یہ آپ کے ایمان پر قدح کا موجب نہیں ، صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ : ’’ بنی اسرائیل میں ایک آدمی نے اپنی اولاد کو وصیت کی، اور کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ سے جلا دینا۔ پھر جب میں راکھ بن جاؤں تو مجھے پیس کر باریک لینا پھر میرا آدھا حصہ آندھیوں کی نذر کر دینا، آدھا صحراء میں بکھیر دینا، اور آدھا سمندر میں ڈال دینا۔ اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا ....اس نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قدرت پالی تو مجھے وہ عذاب دے گا جو اس نے تمام جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا ۔ [[جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ اس کی اولاد نے ایسے ہی کیا جیسے اس نے وصیت کی تھی۔ جب اسے بکھیر دیا گیا ]]تو اللہ تعالیٰ نے خشکی سے کہا کہ اس کے اجزاء جمع کرو۔ سمندر سے کہا: جو تمارے اندر ہیں اس کے اجزاء جمع کرو۔ پس اس آدمی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے لا کھڑا کیا گیا اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: کس چیز نے تجھے اس بات پر برانگیختہ کیا کہ تم اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرو کہ وہ تمارے ساتھ یہ سلوک کریں ؟ اس نے کہا: اے میرے رب!تیری عزت کی قسم! تیرے خوف نے مجھے اس بات پر برانگیختہ کیا تھا۔ تو اللہ جل جلالہ نے اس کے گناہ معاف کر دیے۔‘‘[1] جب اس انسان کے قدرت الٰہی میں دوبارہ بعثت پر شک کے باوجود ایسا ہوا کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے ایسے کیا تو اس کی مغفرت کر دی گئی۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف مغفرت کے بڑے اسباب میں سے ہے، یہ بھی اس وقت ہے جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایسا کرنا گناہ کے کاموں میں سے تھا۔ اس طرح کا کلام کئی ایک صحابہ سے وار د ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ’’ہائے افسوس کہ جب انسان مرجائے تو اسے دوبارہ نہ اٹھایا جائے ۔ اس سے مراد وہ اپنی ذات کو لیتے تھے۔‘‘ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔‘‘
Flag Counter