Maktaba Wahhabi

306 - 406
سے استنباط کا عادی اور ماہر بنا یا جائے۔ پس آپ پر اس مسئلہ کی نص صریح مخفی تھی تو آپ نے اس آیت کی طرف رہنمائی کرنے میں کفایت سمجھا، جو اسے معنی کلالہ تک پہنچنے میں کافی ہو جائے گی۔ جیسا کہ اس قول میں ہے: اے عمر! کیا تمہارے لیے آیت صیف کافی نہیں ہے جو سورت نساء کے آخر میں ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’شاید کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے سختی برتی ہو کہ آپ کو اندیشہ محسوس ہوا ہو کہ کہیں عمر اور دوسرے صحابہ صرف نص صریح پر ہی تو کل کر لیں ، اور نصوص سے استنباط کرنا چھوڑ دیں ، فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ﴾ [النساء: ۸۳] ’’اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے ۔‘‘ استنباط کا اہتمام کرنا مطلوب واجبات میں سے تاکیدی امر ہے۔کیونکہ صریح نصوص صرف تھوڑے سے پیش آمدہ مسائل کے لیے کفایت کر سکتی ہیں اور اگر استنباط میں اہمال برتا جائے تو اکثر یا بعض احکام نوازل میں فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ [1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر گامزن تھے۔ ان کی رائے میں کلالہ وہ ہے جس کے نہ ہی والدین باقی ہوں اور نہ ہی اولاد ہو۔‘‘ اس پر ان کے بعد جمہور علماء کا اتفاق ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یہی رائے رکھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غزوہ حنین سے فرار: معترض کہتا ہے:’’ عمر رضی اللہ عنہ معرکہ حنین میں شکست کھا کر بھاگ گئے تھے۔‘‘ ردّ:.... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’جو لوگ حنین کے دن ثابت قدم رہے، ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شاہل ہیں ۔ ‘‘ امام طبری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’جس بھاگنے کی ممانعت ہے، وہ ایسا بھاگنا ہے جس میں واپس آنے کی نیت شامل نہ ہو ۔رہ گیا کثرت کے مقابلہ کے لیے چال بدلتے ہوئے پیچھے ہٹنا، تو یہ جماعت کے ساتھ ملنے والوں کی طرح ہے۔‘‘ ٭ عبدالرحمن بن جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین وانصار اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ایک جتھا باقی رہ گیا تھا اور مہاجرین میں ثابت قدم رہنے والوں میں
Flag Counter