Maktaba Wahhabi

192 - 406
کائنات کے سب سے بڑے خیرخواہ اور ناصح تھے اور جو وحی کے بغیر اپنی مرضی سے بات بھی نہیں کرتے تھے، وہ آپ کو نصیحت کرتے اور کبھی یہ نہ ارشاد فرماتے:’’ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ بلکہ آپ یہ فرما دیتے کہ ’’اللہ میرے ساتھ ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یہ نہیں فرما سکتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى ﴾ [طہ: ۴۶] ’’ڈرو نہیں ، بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں ، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ لیکن فرعون اللہ تعالیٰ کی اس معیت میں داخل نہیں ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار کے ساتھی نہیں شبہ:.... حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار کے ساتھی نہیں تھے، وہ کوئی دوسرا آدمی تھا، جیسا کہ بعض معاصر معترضین نے کہا ہے۔ ہم اس مسئلہ میں امامیہ کی اسناد سے بعض روایات پیش کرتے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی یارِ غار ہیں ۔ یہ روایات ان شبہات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ابن الکواء نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ اس وقت کہاں تھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرمایا: ﴿ إِذْ أَخْرَجَهُ .....مَعَنَا ﴾ [ التوبۃ: ۴۰] ’’توحضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابن الکواء! تیرے لیے ہلاکت ہو، میں اس وقت رسول اللہ کے بستر پر تھا۔[1] جبکہ مشہور امامیہ عالم شیخ المفید نے کہا ہے: ’’حضرت ابوبکر صدیق کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خروج کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی غار میں آپ کے ساتھ موجودگی کا انکار ممکن ہے۔ آپ کی صحبت کا استحقاق بڑا ہی معروف ہے۔‘‘[2] ٭اور مجلسی نے ﴿ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے: ’’یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں تھے۔ ان کے ساتھ کوئی تیسرا نہیں تھا اور فرمان الٰہی ﴿ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے تھے۔‘‘[3]
Flag Counter