Maktaba Wahhabi

302 - 406
علامہ صالح البغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ اس سے حدیث نہ لکھی جائے۔‘‘ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ ضعیف ہے۔‘‘ امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ ثقہ نہیں ہے۔‘‘[1] امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘ ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ عثمان بن مطر ان راویوں میں سے تھا جو ثقہ راویوں کے نام پر احادیث گھڑتے ہیں ۔‘‘ [2] اگر فرض کریں کہ یہ تمام روایات صحیح ہیں ، تو پھر بھی، ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور آپ کی علمیت پر قدح وارد نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ آپ خطاء یا لغزش کے وقوع سے معصوم نہیں ہیں کہ اس معاملہ کو آپ کی شان میں تنقیص کا ذریعہ بنا لیا جائے اور نہ ہی آپ کے علم پر اس سے آنچ آتی ہے اور نہ اس پر کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو آپ کی زبان پر جاری کر دیا تھا ۔ اس لیے کہ کئی ایک واقعات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی موافقت میں قرآن اتارا ہے۔ جب آپ پر لاکھوں میں سے ایک معاملہ مخفی رہ جائے،اور پھر آپ کو اس کی معرفت حاصل بھی ہوجائے۔ یاکوئی چیز آپ کو بھول جائے اور یاد دلانے پر یاد آجائے۔ تو اس میں عیب والی کون سی بات ہے؟ آپ کے علم وفقہ کی دلیل آپ کا حق کی طرف رجوع کرنا، اور اپنی رائے سے دست برداری کرنا ہے۔ تو کیا یہ مذمت یا عیب جوئی کی بات ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان: تمام لوگ عمر سے بڑھ کر فقیہ ہیں ....‘‘ جواب:.... اگر اس روایت کی صحت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ ان الفاظ میں مروی نہیں کہ آپ نے یہ فرمایا ہو کہ :’’ ہر ایک عمر سے بڑا فقیہ ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات کہنے کا بھی کوئی سبب ہے۔ مگریہ طعنہ باز اس سبب کو چھپا کر یہ وہم دلانا چاہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ایسے ہی کہا ہے۔ یہ پوری روایت سعید بن منصور نے سنن میں شعبی سے روایت کی ہے، کہتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے ، لوگوں میں خطبہ دیا، حمد و ثناء کے بعد کہا: ’’لوگو! عورتوں کے مہر میں حد سے نہ بڑھو۔اور اگر مجھے یہ اطلاع ملی کہ کسی نے اس سے زیادہ مہر دیا یا لیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور بیٹیوں کے مہر سے زیادہ ہو تو میں اسے بیت المال میں ڈال دوں گا ۔ پھر آپ منبر سے نیچے اترے تو قریش کی ایک عورت آپ کے سامنے آئی اور اس نے کہا: ’’ آپ ہم سے وہ چیز کیوں روکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب
Flag Counter