Maktaba Wahhabi

339 - 406
یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے، لیکن اس بات کی طرف بھی تنبیہ کی ہے کہ یہ حؤاب بستی کے چشمے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما نیبھی شہادت دی تھی۔ یہ اسلام میں پہلی جھوٹی گوہی تھی۔ [1] شیخ البانی رحمہ اللہ نے قاضی ابن العربی رحمہ اللہ پر نکارت حدیث کے حوالے سے عتاب کیا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس مزعوم اور من گھڑت شہادت پر اتفاق کیا ہے، آپ نے یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خروج خطا پر مبنی تھا۔ لیکن اس حدیث کی روشنی میں یہ کوئی معصیت اور گناہ کا کام نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس حدیث میں صرف یہ اشارہ ہے کہ وہ عنقریب ایسے مقام پر جائے گی جہاں پر فتنے پیش آئیں گے اور بہت سارے لوگ قتل ہوں گے اور جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے آپ کے مؤقف اور موجود ہونے کی اہمیت سمجھائی، تاکہ لوگوں کے مابین صلح ہو سکے۔ یہ حضرات خیال کرتے تھے کہ لوگ آپ کا بہت احترام کرتے ہیں ۔ آپ کے وجود کی برکت سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ مگر اس کے باوجود آپ کا مؤقف خطا پر تھا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مواقع ایسے آتے ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ انبیاء کرام کا بھی معاتبہ کرتے ہیں ۔ تو پھر جو لوگ انبیائے کرام علیہم السلام سے کم مرتبہ کے حامل ہیں ، ان سے خطاء کا احتمال زیادہ اولی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک آدمی کونہ چاہتے ہوئے بھی قتل کر دیا، حضرت خضر کے ساتھ کیا گیا عہد بھول گئے۔ حضرت یونس علیہ السلام غصہ میں قوم کو چھوڑ کر چل دیے۔ مگر ان چیزوں کے باوجود ان حضرات کے فضائل میں کمی نہیں آتی بلکہ فی ذاتہ ایسے واقعات انصاف اور دین وعقل سے محرم لوگوں کے لیے فتنہ ہیں ، اسی لیے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں ، آپ دنیا وآخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے تمہیں آزمایا ہے کہ تم اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا اس کی۔‘‘ [2] اس سفر میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے محرم تھے۔ باندی لے کر گھومنے والی روایت: وکیع بن العلاء بن عبدالکریم الیامی نے عمار بن عمران سے، اس نے ایک آدمی سے روایت کیا ہے اور وہ ایک عورت سے روایت کرتا ہے، وہ کہتی ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک باندی دیکھی، اور پھر اسے ساتھ لے کر گھومتی رہی، اور کہتی رہی: ’’شاید کہ ہم اس کے ذریعہ قریشی نو جوانوں کو شکار کرلیں ۔‘‘ جواب:.... اس روایت کی سند میں عورت، اور اس سے روایت کرنے والا آدمی دونوں مجہول ہیں ۔
Flag Counter