Maktaba Wahhabi

394 - 406
وَجِيهًا ﴾ [الاحزاب: ۶۹] ’’اے لوگو! جوایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے انھیں اس سے پاک ثابت کر دیا جو انھوں نے کہا تھا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والے تھے۔‘‘[1] الجزائری نے کہا ہے: محدثین کی ایک جماعت نے کہا ہے: ’’جب صحیح آحادیث میں یہ وارد ہوا ہے تو اس میں اب کوئی استبعاد والی بات نہیں اور اس طرح سے ان کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھنا، اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عمد یا قصد نہیں تھا۔ آپ کو یہ پتہ نہیں چلاتھا کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے یا نہیں اور آپ کا کپڑے پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے ننگے چلنا۔ یہ منفرات میں سے نہیں ہے۔‘‘[2] حد یث: ....انبیائے کرام علیہم السلام سے طلب شفاعت بروز قیامت: کہتے ہیں : اس حدیث میں اولی العزم انبیاء اللہ کے مقام پر تجاوز ہے، اور ان کی نزاہت وپاکیزگی میں خلل اور اس سے برأت ہے۔ اس لیے کہ سنن مقدسہ میں سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت انبیاء کی اس غایت درجہ کی تعظیم ہے، جس سے دل اجلال اور ہیبت سے بھر جاتے ہیں ۔ آگے چل کر کہتا ہے: ’’ اس پس منظر میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجنبی اور بہت دور کی چیز ہے اور آپ کی سنتوں سے ہر لحاظ سے جدا ہے۔ معاذ اللہ کہ انبیاء کی طرف ایسی چیز یں منسوب کی جائیں جو اس حدیث میں بھری ہوئی ہیں اور حاشاو کلا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں حرام کر کے اللہ کے غضب کو واجب کیا ہو۔ بے شک آپ کو درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ یہ نہی وممانعت تنزیہ اور ارشاد کے لیے تھی اور نوح علیہ السلام اس سے پاک ہیں کہ آپ اللہ کے دشمنوں کے علاوہ کسی پر بددعا کریں ۔ ‘‘ جواب: ....یہ حدیث حضرت انس بن مالک، ابو سعید، ابو بکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے، اور ائمہ اہل بیت کی اسناد سے جعفربن محمد سے روایت ہے کہ: ’’جب قیامت کا دن ہوگا، اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو ایک جگہ پر جمع فرمائیں گے....: وہ وہاں پر کھڑے رہیں گے حتیٰ کہ وہ پسینہ میں ڈوب جائیں گے پھر وہ کہیں گے: کاش! اللہ تعالیٰ ہمارے
Flag Counter