Maktaba Wahhabi

400 - 406
’’ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی اور لوگوں نے صفیں سیدھی کر لی تھیں ۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آگے بڑھے ۔ لیکن حالت جنابت میں تھے (مگر پہلے خیال نہ رہا )۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ’’ تم لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ غسل کئے ہوئے تھے اور سرمبارک سے پانی ٹپک رہا تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی ۔‘‘[1] کہتے ہیں : اس آدمی کی بیہودہ گوئی میں اس کا یہ قول بھی ہے کہ نماز کے لیے اقامت ہوگئی اور صفیں سیدھی ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لائے جب اپنے مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے تو یاد آیا کہ وہ حالت جنابت میں ہیں ۔ ہم اللہ کی بار گاہ میں اس الزام سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جو اس رسول کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو ہر وقت پاک رہتے تھے (باوضو رہتے تھے) اور آپ کے نزدیک وضوء پر وضو کرنا نُوراً علٰی نُور تھا۔ تمام انبیاء اس مضمون سے پاک ہیں ۔ اس سے کم تر اور اس سے ادنی چیز سے بھی معصوم ہیں جو کہ صدیقین اور صالح مؤمنین کے شایان شان نہیں ۔ جواب: ....ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز ظہر پڑھائی، اور آپ بلاطہارت تھے۔ پھر آپ گھر میں داخل ہوگئے، اور ایک منادی کرنے والا نکلا اور اس نے منادی کی: امیر المؤمنین نے بغیر وضوء کے لوگوں کو نماز پڑھائی ہے، اپنی نمازیں دوبارہ پڑھو، اور حاضرین غائیبن تک یہ پیغام پہنچا دیں۔‘‘[2] حد یث:.... عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بھی ؟تو آپ نے فرمایا: ’’اورمیں بھی نہیں ؛ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں سمیٹ لیں ۔‘‘[3] کہتے ہیں : بہت ساری آیات کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو دیوار پر مار دیا جائے۔ آپ کے لیے یہ آیت کافی ہے: ﴿ إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا﴾ [الانسان: ۲۲]
Flag Counter