Maktaba Wahhabi

166 - 406
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾ [محمد: ۳۳] ’’اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔‘‘ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو ابوداؤد نے مراسیل میں بیان فرمائی ہے ۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ نماز جمعہ کے بعد دیا کرتے تھے جیسا کہ عیدین میں اب بھی یہی معمول ہے ، ایک جمعہ کے روز یہ واقعہ پیش آیا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ کے بازار میں پہنچا ....‘‘ [1] اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کو پہلے کردیا اور نماز کو بعد میں ۔‘‘[2] یوم حنین میں فرار شبہ:.... کثیر تعداد صحابہ کا یوم احد اور یوم حنین میں بھاگ جانا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴾ [آل عمران: ۱۵۵] ’’بیشک جو لوگ تم میں سے اس دن پیٹھ پھیر گئے جب دو لشکرلڑپڑے، بیشک شیطان نے انھیں ان کے بعض اعمال کی وجہ سے پھسلایا اوریقیناً اللہ نے انھیں معاف کر دیا، بیشک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔‘‘ ٭ یوم احد میں بھاگنا جنگ سے بھاگنے کی ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے اور اگر یہ کہیں کہ یہ بعد کا واقعہ ہے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿ وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴾[آل عمران: ۱۵۵] ’’ یقیناً اللہ نے انھیں معاف کر دیا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا عذر قبول فرماکر انھیں معاف کر دیا ہے اور پھر اللہ نے ہی ان کا تزکیہ بیان کیا ہے اور ان کی ثناء و تعریف بیان کی ہے۔ تو کیا پھر اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے؟
Flag Counter