Maktaba Wahhabi

395 - 406
درمیان فیصلہ فرمادیتے ۔ بھلے جہنم میں ہی ڈال دیتے۔ پھر وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے او رکہیں گے:’’ آپ ہمارے باپ اورنبی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ وہ ہمارا فیصلہ کرے، بھلے جہنم کی آگ میں ہی ڈال دے۔‘‘ حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے: میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھے اپنے عرش پر بٹھایا، اور اپنے فرشتوں سے مجھے سجدہ کروایا۔ پھر مجھے حکم دیا، اور میں نے اس کی نافرمانی کی....‘‘ [1] حد یث: ....حضرت ایوب علیہ السلام پر سونے کی ٹڈیاں گرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دن حضرت ایوب علیہ السلام برہنہ نہا رہے تھے، ان پر سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں تو حضرت ایوب علیہ السلام انھیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ انہیں ان کے پروردگار نے آواز دی کہ اے ایوب! کیا میں نے تمہیں اس سونے کی ٹڈی سے جو تم دیکھ رہے ہو، بے نیاز نہیں کردیا؟ انہوں نے کہا:’’ ہاں ! آپ کی بزرگی کی قسم! آپ نے مجھے بے نیاز کردیا ہے لیکن مجھے آپ کی برکت سے بے نیازی نہیں ہو سکتی ۔‘‘[2] کہتے ہیں : اس حدیث کی طرف وہی مائل ہو سکتا ہے جس کی بصیرت اندھی ہو چکی ہو، اور اس کی حس میں اندھیر ہو۔ اس لیے کہ سونے سے ٹڈی کا پیدا کرنا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی جوکہ خرق عادت تھی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس کی سنت یہ ہے کہ ایسی چیزیں صرف ضرورت کے وقت پیدا ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ اگر ثبوت نبوت ایسے معجزہ پر موقوف ہو تو اس وقت نبوت کی برہان اور رسالت کی دلیل کے طور پر ایسا سامنے آتا ہے۔ جواب: ....یہ روایت ائمہ اہل بیت سے بھی مروی ہے۔ ابو عبداللہ علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنے گھر میں سونے کی ٹڈیوں کی بارش کی۔ آپ انہیں جمع کرتے۔ جب ہوا ان میں سے کسی ایک کو اڑالے جاتی تو آپ اس کے پیچھے جاتے اور اس کو واپس لاتے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا: اے ایوب! آپ سیراب نہیں ہوتے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ اپنے رب کے رزق سے کون سیراب ہوتا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter