Maktaba Wahhabi

309 - 406
بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم ہو گا، دوسروں میں نہیں ۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسوہ پر گا مزن رہے۔ امام طحاوی اور دار قطنی رحمہ اللہ نے محمد بن اسحق رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں :’’ میں نے ابو جعفر محمد بن الحسن سے پوچھا: جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ذوالقربی کے حصہ میں کیسے تصرف کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت پر گامزن رہے تھے۔‘‘ [1] نماز تراویح کا شبہ: ایک شبہ یہ ہے کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دین میں ایسی چیزیں ایجاد کیں جو پہلے سے موجود نہیں تھیں ۔ جیسا کہ باجماعت نماز تراویح کا قیام بھی ایک بدعت ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے اعتراف کیا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ جواب:.... اہل سنت والجماعت کے ہاں مشہور ومتواتر احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تین دن تک باجماعت نماز تراویح پڑھی۔ یہ رمضان کی راتوں کا واقعہ ہے۔پھر آپ چوتھے دن اس اندیشہ کے پیش نظر تشریف نہ لائے کہ کہیں امت پر یہ فرض نہ ہو جائے۔‘‘[2] جب علت محذور زائل ہوگئی، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت سنت کو پھر سے زندہ کیا۔ فریقین کے ہاں ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی حکم کسی علت کے ساتھ مقید ہو، جس پر شارع کی طرف سے نص موجود ہو، تو علت کے زائل ہونے سے وہ حکم اٹھ جاتا ہے۔ رہ گیا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس کے بدعت ہونے کا اعتراف کرنا، جیسا کہ آپ نے فرمایا ’’نعمت البدعۃ ‘‘ یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘ اگر اسے بدعت کا نام دیا بھی جائے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور سابقہ حدیث ان ایجادات کے ساتھ خاص ہے جن کی کوئی اصل شریعت میں موجود ہی نہ ہو۔ او ریہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے تعریض اور تنبیہ کے طور ان لوگوں کے لیے کہا ہو، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بد گمانی کا شکار ہوتے ہوں ۔ آپ کی مراد یہ ہوکہ اگر یہ معاملہ بعض بد گمان لوگوں کے نزدیک بدعت ہی ہے تو پھر یہ بہترین بدعت ہے۔ اس کا حقیقی معنی یہ ہوا کہ یہ کام بدعت نہیں ہے۔ اس کی مثال حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ شعر ہے: وان کا ن رفضاً حبُّ آل محمدٍ فلیشہد الثقلانِ بانّیِ رافضي ’’اگر آل محمد سے محبت رکھنا رافضیت ہے، تو جن وانس کو گواہ رہنا چاہے کہ میں رافضی ہوں ۔‘‘ آپ کا مقصد یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی آل بیت سے محبت رکھتا ہو، وہ رافضی ہی ہو، یہی معنی
Flag Counter