Maktaba Wahhabi

358 - 406
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امت کی موافقت حاصل کرنے کے بڑے حریص تھے۔ اگر آپ کا ارادہ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر بیعت لینے کا ہوتا تو یزید کی بیعت کے لیے ایک بار کی بیعت ہی کافی تھی اور پھر اسے لوگوں پر مسلط کر دیاجاتا۔ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسے نہیں کیا ۔ بلکہ مخالفت کرنے والوں نے مخالفت کی ، کسی کو آپ نے مجبور نہیں کیا۔ وہ سبب جس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یزید کی بیعت لینے کے لیے ابھارا تاکہ اختلاف باقی نہ رہے، اور اجتماعیت قائم رہے وہ سابقہ اوقات میں امت کے کشیدہ حالات تھے۔ کیونکہ خلافت کے طلب گار اب بھی بہت تھے، آپ کا نقطہ نظریہ تھا کہ یزید کو ولی عہد بنانے سے اختلاف ختم ہو جائے گا، اور اہل حل وعقدکے اتفاق سے فتنہ کی جڑیں اکھاڑ کر رکھ دی جائیں گی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو موروثی نظام سونپ کر کوئی بدعت نہیں کی۔ اس سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں عہد ولایت لے کریہ مثال قائم کر چکے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی عہد ولایت کا ارادہ کیا تھا، مگر اس کو چھ صحابہ میں محصور کر دیا تھا۔ اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ کہے کہ یہ نظام حضرات شیخین بنایا تھا۔ توہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ اولاد کو نظام حکومت وراثت میں دینے کی مثال پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قائم کی تھی جب آپ نے اپنے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ولی عہد خلیفہ متعین کیا تھا۔ کلینی نے اصول کافی میں سلیم بن قیس سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے: ’’میں حضرت امیر المؤمنین کی وصیت کے وقت وہاں پر موجود تھا آپ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت کی اور اس پر حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور محمد بن علی کے علاوہ تمام اولاد اور تمام شیعہ روساء اور اہل بیت کو گواہ بنایا، اور اپنی کتاب اور اسلحہ آپ کے سپرد کیا۔‘‘[1] حدیث حضرت عمار رضی اللہ عنہ : شبہ:.... ’’اے عمار: تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘ ردّ:.... بغاوت دو قسم کی ہوتی ہے: عمداً تاویلاً۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغاوت تاویل کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم حق پر ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر اس تاویل کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے بغاوت نہیں کی تھی۔ ٭اس حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں جہنم کی طرف بلارہے تھے۔بلکہ یہ
Flag Counter