Maktaba Wahhabi

48 - 406
۷۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں پر خاموشی: کسی ایسی چیز میں دخل اندازی نہ کی جائے جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف دل میں کچھ میل پیدا ہوتی ہو۔اہل سنت والجماعت اعتدال پسند شریعت کے حامل لوگ ہیں جو کہ غلوو جفا اور افراط وتفریط سے بہت دور ہیں ۔اس لیے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عالیشان منزلت کا عقیدہ و ایمان رکھتے ہیں ؛ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ لوگ معصوم نہیں تھے؛ اور ان سے کسی غلطی یا لغزش کے سرزد ہوجانے سے ان کی عدالت پر فرق نہیں آتااورجو کچھ ان سے وقوع پذیر ہوا اسے کسی دوسرے سے سرزد ہونے والے فعل پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔یہ فرق وہی انسان سمجھ سکتاہے جو دونوں گروہوں کی سیرتوں کے مابین فرق کو سمجھتا ہو۔ پھر وہ روایات جن کی بنا پر یہ محسوس ہو رہا ہو کہ ان میں سے کسی ایک سے گناہ یا خطا ہوئی ہے؛اس بات کا بھی بھرپور امکان ہے کہ اس روایت میں کمی بیشی کی گئی ہو۔یا وہ روایت سرے سے ثابت ہی نہ ہو۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید والی اکثر روایات کایہی حال ہے۔۔تو ایسی روایات کو بغیر کسی تردد اورحیل و حجت کے دیوار پر ماردیا جائے گا۔ یا پھر اس روایت کی کوئی مناسب اور صحیح تاویل دیکھی جائے گی۔ جب کسی بھی سچے اور مخلص مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے عام مسلمان کے بارے میں حسن گمان رکھے؛ تو پھر مسلمانوں کی سردار ہستیوں اور اس قدسی جماعت کے متعلق کیا خیال ہے جو دین اسلام کے رموز سمجھے جاتے ہیں ؟ اس کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایسے ویسے افعال کو ان کی مناسب تاویل؛یا پھر سہو اورغفلت پریا ایسے اجتہاد پر محمول کیا جائے جس میں ہر صورت میں ان کے لیے کوئی نہ کوئی اجر ضرور ہے۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خواہ کیسا ہی کوئی کام ہوگیا ہو؛اس کے کفارہ کے لیے پانچ باتیں کفایت کرجاتی ہیں : اوّل:.... یہ کہ انہوں نے اس گناہ یا غلطی سے توبہ کرلی ہوگی۔یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توبہ کرنے میں سب لوگوں پر سبقت لے جانے والے تھے۔ اور حدیث میں واضح طور پر آیا ہے: ’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘[2]
Flag Counter