Maktaba Wahhabi

380 - 406
اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا ۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور شدت پیاس سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا ۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس کتے کو پلایا ۔ اللہ تعالی کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا اور اس کی مغفرت کر دی گئی ۔‘‘[1] معترضین کہتے ہیں : ہم جانتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث ابو ہریرہ کے خیالات کی پیدوار ہیں ، جن میں مہربانی اور شفقت کے اچھے انجام کو مثال میں بیان کیا ہے اور نیکی اور احسان کی ترغیب دی گئی ہے۔ جواب: ....امام موسیٰ بن جعفر اپنے آباء سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں پر وہ کتے والا بھی دیکھا جس نے کتے کو پانی پلایا تھا۔‘‘[2] اور نعمت اللہ الجزایری لکھتا ہے: ’’ذہن کو خوش کرنے والی روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نبی اسرائیل کاایک ایسا آدمی جو ہر وقت گناہوں میں لت پت رہتا تھا۔ وہ اپنے ایک سفر میں ایک کنویں پر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے ہانپ رہا ہے۔ اس کے دل میں ترس آیا۔ اس نے اپنے عمامہ کے ساتھ موزہ باندھ کر پانی نکالا اورکتے کو پلایا حتیٰ کہ وہ سیراب ہوگیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے نبی کی طرف وحی کی کہ میں نے فلاں انسان کی نیکی کی قدر دانی کی ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیے ہیں ، اس نے میری مخلوق میں سے ایک پر ترس کھایا تھا۔ پس جب اس گنہگار نے یہ سنا تو گناہوں سے توبہ کرلی اور یہ اس کے گناہوں سے توبہ کرنے اور عذاب سے نجات پانے کا ذریعہ بن گیا۔‘‘[3] فضائل صحابہ کی مرویات اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شبہ: ....حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ موضوع احادیث روایت کرتے ہیں ۔ ایک معترض کہتا ہے: دین کا دوسرا آدھا حصہ ابو ہریرہ کے ساتھ خاص ہے، جو ان کے لیے ان کی من پسند روایات نقل کرتا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اسے قربت سے نوازا اور مدینہ منورہ کی امارت بھی سونپی؛ اور وادی عقیق میں اس کے لیے محل بھی تعمیر کیا، حالانکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور اسے راوی اسلام کا لقب دیا، اس طرح بنی امیہ پر ایک
Flag Counter